نوائے سُرود تجھے خدا کو سونپا 

اے ارض فلسطین کے معصوم بچو ! تم نے اپنی زندگی کا مقصد کتنی جلدی حاصل کر لیا القدس سے وفا کی پاداش میں تم اپنے والدین کے سائے سے محروم کیے گئے،اپنے اعضا کٹوا دئیے،گھروں سے بے دخل کیے گئے،بھوک ،پیاس کی شدت برداشت کی ،تمہارے وجود کے چھیتڑے اڑا دئیے گئے،اپنی ننھی جان کا نذرانہ پیش کیا ،محمدؐ کے گلشن کی آبیاری اپنے خون سے کر کے اللہ اور اس کے رسولؐ کے سامنے سرخرو ہو گئے،۔ تمہاری زندگی پہ رشک آرہا ہے۔

قبلہ اول صرف تمہارا نہیں تھا وہ تمام مسلمانوں کے لئے مقدس تھا ، لیکن بدقسمت مسلمان اس سے منہ موڑ گئے۔انہیں یہ اعزاز حاصل نہ ہو سکا کہ انبیا ؑ کی سرزمین کی خاطردشمنان اسلام سے لڑ جاتے، شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوجاتے یا غازی کہلاتے۔ پیغمبرؐ اسلام نے مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا ہے،فلسطین کی تباہی پر چپ سادھ کر پیغمبرؐ کے فرمان کا بھی بھرم نہیں رکھا۔ یہ کیسے بھائی ہیں جو اپنے بھائیوں کے حق میں آواز تک بلند نہیں کر رہے،فلسطین ملیامیٹ ہو گیا مگر امت مسلمہ کان لپیٹے سو رہی ہے ۔بے حسی میں اہل کوفہ کی مثال دی جاتی تھی لیکن اسلامی دنیا نے بے غیرتی اور بے حسی کی تاریخ رقم کرنے میں اہل کوفہ کو بھی مات دے دی ہے ۔مسلمان ہر ذی روح ک لیے اپنے دل میں درد رکھتا تھا مگر اب فلسطین لہو لہو ہے،قبلہ اول پکار رہا ہے ،فرزندان اسلام کو آواز دے رہا ہے ،کوئی تو اس کی پکار پہ لبیک کہے

کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے

کوئی تو چارہ گری کو اترے

افق کا چہرہ لہو میں تر ہے

زمین جنازہ بنی ہوئی ہے

لیکن سب خاموش ہیں ،کوئی نہیں سن رہا ،کوئی نہیں سمجھنا چاہ رہا،کوئی مدد نہیں کر رہا ،عرب نے مدد کی بھی تو کفن کی امداد بھیج کر۔۔ یہ نہیں سمجھ پایا کہ کفن فلسطینیوں کو درکارنہیں وہ تو شہادت کا جام پی کرحیات جاودانی سے سرفراز ہوگئے ہیں، کفن کی امداد باقی اسلامی ممالک کو چاہئیے جنھوں نے اپنے مردہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اسرائیل نے پچاس ہزار ٹن سے زیادہ کا بارود گرا کر فلسطین کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہےہزاروں افراد کو اسرائیلی قیدخانوں میں مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔تعلیمی اداروں کو برباد کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی سال 2023 کے تمام طالب علموں کو شہید کیا گیا۔ کئی ہسپتال برباد ہو گئے ۔جو محفوظ ہیں وہاں علاج کی سہولیات ختم ہو چکی ہیں۔ بجلی کی عدم دستیابی سے انکیوبیٹرز میں موجود بچے بھی موت کی آغوش میں چلے گئے۔

یہود و نصرانی اسلام دشمنی میں اتنے جنونی ہوگئے ہیں کہ بربریت کی تمام حدیں پار کر چکے ہیں۔ ۔دنیا ان کا ساتھ دے رہی ہے ۔مسلم دنیا کچھ بھی نہں کر رہی۔ ایک آدھ مذمتی بیان، کوئی نعرہ بلند ہوتا ہے لیکن کسی کو سنائی دینے سے پہلے ہی دم توڑ دیتا ہے ۔ یاد رکھیں اسرائیل کےخلاف نعرے لگانے کا یا اس کو کوسنے اور بددعا دینے کا وقت نہیں ہے بلکہ میزائیل داغ کر اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کا وقت ہے ۔لشکروں کی صف بندی کا وقت ہے ۔عسکریکاروائیکاوقتہے اپنے ہتھیاروں کو آزمانے کا وقت ہے امت محمدیؐ ہونے کا ثبوت دینے کا وقت ہے ۔مگرکوئی تو نعرہ تکبیر بلند کرے۔۔کوئی تو جہاد کا اعلان کرے۔۔کوئی غیرت مند دشمن کی آنکھیں نوچ لے۔۔ کسی کے دل میں جذبی ایمانی جوش مارے۔ کاش۔۔ کہیں سے صدا آئے کہ اسلامی ممالک نے اسرائیل کو خبردار کر دیا ہے کہ چوبیس گھنٹے کے اندرجنگ بند کرو،ورنہ تمہارا نام ونشان مٹا دیں گے۔۔ کوئی پکارے کہ اسلامی ممالک نے اپنے لشکر فلسطین کی طرف روانہ کر دئیے ہیں۔۔ مجاہدین نے فلسطین کا کنٹرول سنبھال لیا اور اسرائیلی فوج ہتھیا رڈالنے پر مجبور ہو گئی ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔

کہاں ہے مسلمانوں کی غیرت ؟ 56 اسلامی ممالک کی افواج کہاں ہیں؟ جذبہ جہاد کہاں سو گیا؟ میزائیل اور ایٹم بم کہاں چھپائے گئے ہیں؟ ان کی عسکری طاقت کیوں بغلیں جھانک رہی ہے؟ یا یہ سب کچھ نمائش میں رکھنے کے لیے ہیں؟ ۔۔۔کیا ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے؟ہم صرف للکارنے والے رہ گئے ہیں ؟ ۔۔۔۔ ہر گز نہیں ۔۔۔ مسلمانوں کے پاس وہ صلاحیت ہے جو دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں پائی جاتی، ہم بے غیرتی کا مظاہرہ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔۔۔ہم اپنے بھائیوں کو اپنے سامنے کٹ مرتے دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ ہم دودھ پیتے بچوں کو خون میں لت پت دیکھ کر بھی اپنی پیشانی پہ بل آنے نہیں دیتے۔۔اپنی ماوں ،بہنوں ،بیٹیوں کو انسانی درندوں کے ہاتھوں لٹتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں ۔بھوک سے بے حال ، لہولہان،غموں سے چُور،جلے ہوئے تڑپتے ہوئےلوگوں کا تماشا کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ ہمارے حوصلے بلند ہیں کہ چار مہینوں سے کھیلی جانے والی ہولی سے ہم بیزار نہیں ہوئے۔ 32 ہزار افراد کو ہمارے سامنے بموں سے اڑایا گیا لیکن ہمارے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی،ہاسری دھڑکنیں نہیں رکیں،کیوں کہ ہم آہنی جرات وحوصلہ رکھنے والے “مسلمان” ہیں ،کسی اور میں یہ صلاحیت موجود ہو توسامنے آئے۔۔۔۔۔

نام نہاد مہذب دنیا نہ صرف اس خونی کھیل کی تماش بین ہےبلکہ پروڈیوسر اور ڈائرکٹرکی ذمہداری بھی نبھا رہی ہے۔اقوام متحدہ،عالمی عدالت انصاف،سلامی کونسل،ڈبلیو ،ایچ،او۔ یونیسیف،ایمینسٹی انٹرنشنل۔ ایف،اے،او۔ کوئی بھی ادارہ ایسا نظر نہیں آرہا جو اسرائیل کا ہاتھ روک سکے۔ مٹھی بھر یہود نے پوری دنیا کو یرغمال بنا رکھا ہے اوراسے اپنے اشاروں پر نچا رہئ ہے ۔انسانی اور مذہبی اقدار کی پامالی انتہائی ڈھٹائی سے کر رہے ہیں ۔ کئی کلیسا اورمساجد تباہ کئے گئے،خوراک،پانی اور طبی امداد کے ذرائع بموں سے اڑا دئے گئے۔ ہسپتال میں موجود زخمیوں کو باہر نکال کرزندہ درگور کر کے ان پر بلڈوزر چلایا گیا ۔اسرائیل کے عقوبت خانوں میں سات ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں لیکن سنا ہے کہ ان میں کسی کی بھی ہڈیاں سلامت نہیں ہیں،لوگ بھوک کی وجہ سےبلیاں اور گدھے ذبح کر کے کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں اتنا کچھ ہونے کے باوجود مسلمان ممالک خاموش ہیں،کہیں سے بھی عملی اقدامات کی کوشش نہیں ہو رہی۔اب تو فلسطین کے حق میں بولنے کو بھی فیشن کہا جانے لگا ہے۔

یہودی مصنوعات کا بائکاٹ کا کہیں تو جواب ملتا ہے کہ ہم پاکستانی مصنوعات خرید کر اپنی صحت پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔۔ گویا یہ عمل برملا کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے قبلہ اول کی حفاظت نہیں کریں گے لیکن ہندووں کو عرب میں مندر بنانے کی اجازت دیں گے۔۔ اپنا ایمان ان کے بھگوان کے چرنوں میں ڈالیں گے ،فلسطینی ایمبولینس کو تیل نہیں دیں گے لیکن اسرائیلی طیاروں کے لیےہمارے تیل کے ذخائر حاضر ہیں۔ غذہ کے لوگ پانی کو ترستے رہیں ،نیل و فرات کا پانی ان کے لیے نہیں ہے۔ رقص وسرور کی محفلوں میں نوٹوں کی برسات ہو گی لیکن فلسطین کی امداد کے لئے ہم اپنی دولت خرچ نہیں کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے فلسطین ہم شرمندہ ہیں ۔۔اے پیغمبروں کی سر زمین ۔۔ہمارا سر شرم سے جھک گیا ہے ،ہم مجبور ہیں ہم غلام ہیں ہم اپنے آقا کے خلاف نہیں جا سکتے۔۔ تم اپنی جنگ خود ہی لڑنا ۔۔ہم تیرے حق میں نہ آواز بلند کر سکتے ہیں نہ تلوار اٹھا سکتے ہیں اور نہ ہی دشمن کے مصنوعات کا بائکاٹ کر سکتے ہیں اس دنیا کی آسائشیں ہمیں بہت عزیز ہیں ،بے غیرتی کی زندگی اگر چھوڑ دی تو ہمیں بھیک نہیں ملے گی، ہم غلامی کا طوق پہننے کے عادی ہو چکے ہیں ہمیں اسی طرح ہی جینے دے ۔تیری حفاظت خدا خود کرے گا ۔۔۔ جا تجھے خدا کو سونپا۔