آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور زراعت

حالیہ برسوں کے دوران چین کی جانب سے زرعی شعبے کو بہتر اور جدید بنانے کے لئے اپنی کوششوں میں نمایاں تیزی لائی گئی ہے، ملک میں زراعت کا مستقبل اسمارٹ ٹیکنالوجیز کے انضمام اور 5 جی نیٹ ورک کی تعیناتی سے تشکیل پا رہا ہے۔ ویسے بھی زراعت اور دیہی علاقوں پر کام چین کے مرکزی حکام کے ایجنڈے میں سرفہرست رہا ہے۔ چینی حکومت نے 14 ویں پانچ سالہ منصوبے (2021-2025) کے دوران زراعت، دیہی علاقوں اور کسانوں سے متعلق کام کو اپنی اولین ترجیح کے طور پر درج کیا ہے۔انہی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے چینی ماہرین نے ملک کے سب سے بڑے اناج پیدا کرنے والے صوبے ہیلونگ جیانگ میں موسم بہار کی بوائی کے لیے بڑے پیمانے پر مصنوعی ذہانت کے متعدد ماڈلز کا اطلاق کیا ہے۔

ماہرین کا اس حوالے سے یہ بھی کہنا ہے کہ فی الوقت لیبارٹریز میں مختلف قسم کے ماڈلز کو ضم کرنے کا کام جاری ہے جن میں زرعی ریموٹ سینسنگ، نشوونما کا تجزیہ، کیڑوں اور بیماریوں کا پتہ لگانا اور جڑی بوٹیوں کی شناخت وغیرہ شامل ہیں۔یوں،اسمارٹ زراعت کا تیز تر فروغ رواں سال موسم بہار کی کاشت کاری کی ایک اہم خوبی بن چکا ہے۔ چین میں اناج پیدا کرنے والے بڑے پروڈیوسرز اپنی پیداواری صلاحیت کو مزید بڑھانے کے لیے اسمارٹ فارمز تعمیر کر رہے ہیں۔

چین نے زرعی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو مضبوط بنانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔اس ضمن میں کھیت غذائی تحفظ کا ایک سنگ بنیاد ہے، اور ماحولیاتی نظام اور سبز زرعی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے. ملک نے تقریباً 66.67 ملین ہیکٹر سے زیادہ اعلیٰ معیار کے کھیت تیار کیے ہیں، جس سے اناج کی پیداواری صلاحیت کو 10 فیصد سے 20 فیصد فی مو تک بڑھانے میں مدد ملی ہے۔

آج، چین میں دیہی سڑکوں کے مجموعی ثمرات 4.6 ملین کلومیٹر تک پہنچ چکے ہیں، اور تمام اہل قصبوں اور دیہاتوں میں سڑکیں پختہ ہو چکی ہیں۔ 80 فیصد سے زیادہ انتظامی دیہاتوں کو 5 جی نیٹ ورکس تک رسائی حاصل ہے۔دیہی اجتماعی ملکیتی حقوق کے نظام میں اصلاحات بھی ایک اہم کام ہے۔ اس حوالے سے دیہی اجتماعی اثاثوں کی تصدیق اور کسانوں کو رضاکارانہ طور پر اجتماعی اثاثوں میں اپنے حقوق کو حصص میں تبدیل کرنے کی اجازت بھی شامل ہے، اس اصلاحات کا مقصد کسانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا اور دیہی اجتماعی معیشت کی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ اب تک، بیس کروڑ سے زیادہ کسان زمین کے حق یا جنگلاتی زمین کے ٹھیکے کے انتظام کے سرٹیفکیٹ حاصل کر چکے ہیں۔ چار ملین سے زیادہ فیملی فارم اور 2.2 ملین سے زیادہ فارمر کوآپریٹو بڑے پیمانے پر عملی اقدامات کر رہے ہیں۔

چین میں، سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی زرعی جدیدکاری کی ایک بڑی محرک قوت بن گئی ہے، جس میں زرعی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی شراکت کی شرح 63 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے.ملک میں فصلوں کے ذرائع کی خود کفالت کی شرح بھی 95 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے اور چین کے بیدو نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم ٹرمینلز اور تقریباً دو لاکھ پلانٹ پروٹیکشن ڈرونز کے ساتھ ملک بھر میں زرعی مشینری کے 2.2 ملین سیٹ نصب کیے گئے ہیں۔جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کیاطلاق نے روایتی زراعت میں زیادہ موثر طریقے سے زرعی پیداوار کے طریقوں کو بہتر بنایا ہے۔ ملک بھر میں فصلوں کی کاشت، پودے لگانے اور کٹائی میں میکانائزیشن کی شرح 2017 میں 67.2 فیصد سے بڑھ کر 2022 میں 73 فیصد ہوگئی۔ زرعی مشینری اور ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے تعاون کی مدد سے، چین نے 2023 میں لگاتار نویں سال 650 ملین ٹن سے زیادہ اناج کی فصل حاصل کی۔

آج،چین ایک جدید زرعی صنعتی نظام کی تعمیر میں بھی تیزی لا رہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں مجموعی طور پر 02 لاکھ 89 ہزار دیہی سطح پر جامع ڈلیوری اور لاجسٹکس سروس اسٹیشنز اور پیداواری علاقوں میں 75 ہزار ریفریجریشن اور تازہ رکھنے کی سہولیات تعمیر کی گئی ہیں، جس سے تازہ زرعی پیداوار کو بڑی منڈیوں تک تیزی سے رسائی حاصل کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ ملک کے زرعی ماہرین کے نزدیک زرعی جدیدکاری، چینی جدیدکاری کا ایک اہم حصہ ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی کے اطلاق کی بدولت زراعت اور دیہی جدیدکاری کی ترقی کا راستہ اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جو بہت اہم ہے اور اس میں مزید پیش رفت کے لئے وسیع گنجائش موجود ہے۔ زراعت کو جدید بنانے کے لیے چین نے متعدد موئثر اقدامات کیے ہیں اور دیہی اصلاحات کو مسلسل آگے بڑھایا ہے جس سے تمام زرعی شعبوں میں نمایاں اور سنگ میل کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔