نجی یونیورسٹی میں طلبہ کے مسائل

کسی بھی قوم کی ترقی کیلئےتعلیمی اداروں کے اندر اچھے استاد کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ استاد ہمیشہ سے ہی بچوں کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے اور بچہ اپنے رول ماڈل کو دیکھ کرہی اسی سے تعلیم و تربیت حاصل کرتا ہے۔

اگر ہم شہرِ قائد کی بات کریں تو کسی زمانے میں ایک کراچی یونیورسٹی ہوا کرتی تھی جس میں تعلیمی نظام بہترین تھا اور ہر بچے کی خواہش ہوتی تھی کہ اعلیٰ تعلیم کیلئے کراچی یونیورسٹی جائے۔مگر محدود جگہ ہونے کے باعث بہت سے بچے ایڈمیشن سے رہ جاتے تھے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان نےنجی شعبے  کو اجازت دی کہ وہ تعلیمی معیار کے مطابق یونیورسٹیز کھولیں  تاکہ بچوں کو آسانی سے تعلیم فراہم کی جاسکے۔

یونیورسٹیز تو بہت کھل گئیں، مگر ان کے اندر تعلیم حاصل کرنے کیلئے ایک بہت ہی بھاری بھرکم فیس کی ادائیگی  تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے ماں باپ کو کرنی پڑتی ہے،  جن کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کو یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم دی جائے گی۔بہت سی پرائیویٹ یونیورسٹیز اچھا کام کر رہی ہیں، مگر انہی اچھی یونیورسٹیز کے ساتھ بعض اوقات کچھ پروفیسرز اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے بچوں کو تنگ کرتے ہیں اور جب یہ بات بچوں کے والدین کو پتہ چلتی ہے اور وہ شکایت کیلئے یونیورسٹی کے بڑے عہدیداران کو بتاتے ہیں تو پھر جا کر ان پروفیسرز کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔حال ہی میں تعلیمی نظام کے اوپر مختلف سیاسی پارٹیوں نے احتجاج کیا کہ بچوں کو ہراساں کرکے ان کو فیل کیا جاتا ہے یا ان بچوں کو اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ بچے خاموش ہو کر کسی استاد کی شکایت نہیں کرتے۔

حال ہی میں پتہ چلا کہ سر سیّد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں بچے اپنے پروفیسر سے خوفزدہ ہیں اور ان کی شکایت کرتے ہوئے گھبرا رہے ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہم استاد کی شکایت کرتے ہیں تو یا تو ہمیں فیل ہونے کی دھمکی دی جاتی ہے یا ڈگری روک دینے کی۔جب ان بچوں سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور کیا اس میں یونیورسٹی شامل ہے؟ تو بچوں نے کہا کہ یونیورسٹی نہیں، بلکہ اس یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر فضل نور(آرکیٹیکچر ڈپارٹمنٹ) کافی عرصے سے ایسی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں، مگر بچےان کی شکایت کرتےہوئے گھبراہٹ کا شکار ہیں، کیونکہ وہ کسی نہ کسی بہانے سے ان بچوں کو ہراساں کرتے ہیں۔اگر بچوں کی یہ بات سچ ہے تو پھر سرسیّد یونیورسٹی کو اپنے پروفیسر کے خلاف تحقیقات کرنا ہوں گی، اور حقائق کیا ہیں، یہ معلوم کرنا چاہئے۔اگر تعلیمی ادارے بچوں کا تحفظ نہیں کریں گےاور اپنے پروفیسرز کا احتساب نہیں کریں گے تو بچوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔

پروفیسرز اپنے مفادات کو قائم رکھتے ہوئے بچوں کو ہراساں کرتے رہیں گے اور بچے اس ہراسانی کا شکاربنتے رہیں گے۔کیا پروفیسرز کی کوتاہی کو اس لیے چھپایا جاتا ہے تاکہ یونیورسٹی کا نام بدنام نہ ہو؟ یا یونیورسٹیز بھی ان پروفیسرز کے ساتھ ان کے جرم میں شامل ہیں؟ کیونکہ  دیکھا یہ جاتا ہے کہ  مختلف ذرائع سے  بچوں کے ماں باپ کو استعمال کیا جاتا اور جو ماں باپ ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے، ان کے بچوں کو ہراسگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔یہ آرٹیکل Without Prejudiceشائع کیاجارہا ہے، تاکہ سرسیّد یونیورسٹی جیسے نامور پرائیویٹ ادارے بچوں کو اعتماد میں لیں اور تحقیقات کریں کہ ماجرا کیا ہے؟ بچوں کا کسی صحافی کے پاس جانا یہ نشاندہی کرتا ہے کہ بچے خوفزدہ اور پریشان ہیں، جبکہ ان کے ماں باپ اپنا پیٹ کاٹ کر ان تعلیمی اداروں کے اخراجات اٹھا رہے ہیں۔ہمیں چاہئے کہ پاکستان کے اعلیٰ مستقبل کیلئے تمام پروفیسرز کا ذہنی اور تعلیمی امتحان ہر سال لیں تاکہ پتہ چلے کہ وہ پروفیسرز اپنی درست ذہنی صحت کے ساتھ بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم دیں اور انہیں کسی بھی قسم کی ہراسگی یا ذہنی تشدد کا نشانہ نہ بنائیں۔

پاکستان میں پروفیسر کی صرف ڈگری دیکھی جاتی ہے مگر ذہنی حالت  کو مدِ نظر نہیں رکھا جاتا ، جس کی وجہ سے پروفیسرز بچوں پر نہ صرف ذہنی تشدد کرتے ہیں بلکہ ان سےنامناسب طریقے سے پیش آتے ہیں اور بچے خوف کی وجہ سےاور تعلیمی نمبر اور ڈگری  نہ ملنے کے خوف کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں۔اگر اس تمام تر صورتحال میں تبدیلی نہ کی گئی تو بچوں پر اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور بچے تعلیم سے یا تو دور ہوتے جائیں گے یا پھر تعلیم ادھوری چھوڑ کر یونیورسٹی چھوڑنےپر مجبور ہوجائیں گے۔تعلیمی اداروں کو چاہئے کہ تمام یونیورسٹیز کے پروفیسرز کی ہر قسم کی جانچ پڑتال کریں ، بصورتِ دیگربچوں کو ہراساں کرنے والے پروفیسرز اور لیکچررز نہ صرف اداروں کا نام ہی خراب نہیں کرتے بلکہ بچوں کامستقبل بھی برباد کرنے کا سبب بن رہے ہیں جبکہ یہ بچے ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔جب ہمیں کچھ بچوں اور بچیوں نے بتایا تو ہم نے اپنی صحافت کا فرض سمجھتے ہوئے یہ مضمون تحریر کیا تاکہ سرسیّد یونیورسٹی اس کی تحقیقات کرےتاکہ بچوں کی شکایات صحافیوں تک نہ پہنچیں، بلکہ انہیں یونیورسٹی میں ہی حل کیا جائے۔بچے بہت ہی سہمے ہوئے اور بے بس محسوس کرتے ہیں جب انہیں ہراساں کیا جائے۔ جبھی وہ یاکسی صحافی کے پاس یا پھر سیاسی لوگوں کے پاس فریاد لے کر پہنچتے ہیں۔

حصہ
mm
ندیم مولوی ملک کے معروف ماہر معیشت ہیں،وہ ایم ایم سیکورٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹربھی ہیں،ندیم مولوی کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔