ویلنٹائن ڈے یا یومِ حیا

“السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ” عالیہ نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے اونچی آواز میں کہا۔

“وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ” میں نے سلام کا جواب دیا۔ عالیہ نے کالج سے آ کر سلام کے علاوہ کوئی بات نہیں کی اور خلاف معمول بھوک، بھوک کا شور بھی نہیں مچایا اور خاموشی سے اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی، میں نے محسوس کیا کہ عالیہ کا ذہن کسی بات کو لے کے شدید الجھن کا شکار ہے میں عالیہ کے پاس گئی اور پیار سے اسے آواز دی تو صرف “ہوں” میں جواب پایا۔ میرا شک یقین میں بدل گیا وہ کچھ سوچ رہی تھی اسی لیے میرے کمرے میں آنے اور اسے بلانے پر بھی بھرپور جواب نہیں دے پائی۔ یہ وہ لڑکی تھی جس کے آنے پر گھر کی رونق بحال ہوتی اور گھر میں اس کے کالج میں گزرے وقت کی کہانی چہچہا رہی ہوتی تھی۔ آج وہ خاموش اور الجھی ہوئی تھی۔ میں نے اسے متوجہ کرتے ہوئے کہا: بیٹا! کیا بات ہے؟ آج آپ خاموش سی اور الجھی ہوئی لگ رہی ہیں، ایسی کیا بات ہے جس نے میری بہادر اور مضبوط بیٹی کو شش و پنج میں ڈالا ہوا ہے؟

عالیہ کو تو جیسے انہی تسلی آمیز الفاظ کی تلاش تھی اس نے امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنا شروع کیا (گویا اس کی الجھن اب ضرور سلجھ جائے گی): ماما! آج کالج میں لڑکیوں کا آپس میں اختلاف ہو گیا۔ ویلنٹائن ڈے کو لے کے بہت بحث ہوئی اور میں ان کی باتیں خاموشی سے سنتی رہی اور کسی فیصلے پہ نہ پہنچ سکی۔ کچھ لڑکیاں کہہ رہی تھیں کہ ہم 14 فروری کو “ویلنٹائن ڈے” منائیں گی اور کچھ کا کہنا یہ تھا کہ ہم “یومِ حیا” کے طور پر منائیں گی “ویلنٹائن ڈے” نہیں جیسا کہ غیر مسلم مناتے ہیں۔

ماما وہ ایسا کیوں کریں گی؟ وہ ویلنٹائن ڈے کیوں نہیں منائیں گی؟ ویلنٹائن ڈے کیا ہوتا ہے؟ اور یومِ حیا کیا ہوتا ہے؟

میں مسکرائی اور اپنی بیٹی کے پروان چڑھتے ذہن میں ایمان اور حیا کا تعلق، عفت و عصمت اور پاک دامنی کا ضامن”دستور زندگی” سمجھانے کی ایک کمزور سی کوشش کرتے ہوئے کہنا شروع کیا: بیٹا! شیطان ہمارا دشمن ہے، ایک ہمارے اندر ہے اور ایک باہر ہے، اور دونوں سے ہی مقابلہ بہت سخت ہے۔ مقابلہ ہم تب ہی جیت سکتے ہیں جب ہمارا دل ایمان کی دولت سے مالا مال ہو۔ جب ہمارے اندر ایمان آ جاتا ہے تو ہم زندگی بھی اسی رب کے حکم کے مطابق گزارتے ہیں جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی امت کو بے مثال کردار کا حامل بنانے کے لیے “حیا” کو ایمان کی عظیم شاخ قرار دیا ہے کیونکہ “حیا” ایک قیمتی زیور کی طرح ہے جو انسان اسے اپناتا ہے وہ خوبصورت کردار کا حامل ہوتا ہے اور “حیا” ہی وہ صفت ہے جو انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہے۔

“حیا” کیا ہوتی ہے؟ اور ہم کیسے جانے کہ جو ہم کر رہے ہیں وہ “حیا” والا عمل ہے یا نہیں؟ عالیہ نے پوچھا۔

بیٹا “حیا” ایسی صفت کا نام ہے کہ جو گناہ اور معیوب کام کرنے کے خوف سے انسان کی طبیعت میں ملامت اور گھٹن کی کیفیت کو پیدا کرتی ہے۔ اس کا منبع دل ہے اور اس کا مظہر چہرہ ہے۔ ایسے ہی تو نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”حیا خیر ہی لاتی ہے۔” (رواہ مسلم)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:”بے شک “حیا” ایمان کا حصہ ہے۔” (رواہ بخاری)

دین اسلام میں نامحرم مرد کے ساتھ دوستی حرام ہے اور بے حیائی کا کام ہے۔ ہمارا مذہب ہمیں واضح طور پر حکم دیتا ہے کہ مرد و عورت کا اختلاط ناجائز ہے۔ کسی مرد کا نامحرم عورت کے ساتھ اور کسی عورت کا نامحرم مرد کے ساتھ دوستی، میل جول اور نکاح کے بغیر اظہار محبت کرنا “زنا” کہلاتا ہے اور قران کریم میں ایسے مردوں اور عورتوں کے لیے *”اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ”* کہا گیا ہے۔ اور ویلنٹائن ڈے انہی سب کاموں کا دوسرا نام ہے۔ ویلنٹائن ڈے میں کسی بھی عمر کے مرد اور عورتیں ایک دوسرے سے نکاح کیے بغیر محبت کا اظہار کرتے ہیں، تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے اور خلوت میں وقت گزارا جاتا ہے جو کہ اسلامی طرز زندگی کے بالکل منافی ہے اور ہمارے مذہب میں یہ “زنا” کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی لیے اپنے رب سے محبت رکھنے والے مسلمان اسے “یومِ حیا” کے طور پر مناتے ہیں اور بے حیائی اور فسق والی زندگی سے بچتے ہوئے شریعت کے احکامات کی پابندی کی یاد دہانی کرتے ہیں اور پاکیزہ اسلامی زندگی گزارنے کے عزم کو تازہ کرتے ہیں۔ تاکہ مسلمانوں کے ایمان کا جنازہ نکالنے والی اس فرسودہ رسم کی جڑ کو کاٹا جا سکے۔

بیٹا ہمارا دین اسلام ہمارے لیے رشتوں کے حوالے سے کچھ حدود و قیود عائد کرتا ہے جس پر عمل کیے بغیر ایک باحیا معاشرے کا قائم ہونا ممکن ہی نہیں بلکہ ہماری کچھ معاشرتی اقدار بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اپنی حدود میں رہیں تو ہی رشتوں کا حسن قائم رہ سکتا ہے۔ ہم اس دین کے داعی ہیں جو ہمیں ماں بیٹے،باپ بیٹی،بھائی بہن،خالہ ماموں اور چچا پھپھو جیسے پاکیزہ رشتوں کے ساتھ بھی ایک حد تک بے تکلفی اور حجاب میں رہنے کا حکم دیتا ہے۔ جہاں ماں باپ کے کمرے میں بلا اجازت داخل ہونا یا جوان بھائی بہن کے کمرے میں بے دھڑک داخل ہونے کی بھی ممانعت ہے۔ جہاں محرم رشتوں میں بھی ایک حد فاصل مقرر کر دی گئی ہے اور نامحرم رشتوں کی نشاندہی کر دی گئی ہے کہ جن کے ساتھ کھلم کھلا اختلاط اور میل ملاپ کسی طور جائز نہیں۔ باحیا بیٹیاں وہی ہوتی ہیں جو تمام اسلامی احکامات اور حدود و قیود کی پاسداری کرتی ہیں اور اپنا آپ کسی نامحرم کے حوالے نہیں کرتیں۔ قران مجید میں اللہ تعالی کا واضح ارشاد ہے:” اے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم مومن عورتوں سے کہہ دیجیے! اپنی نظریں بچا کر رکھے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھریں سوائے اس کے کہ جو خود ظاہر ہو جائے اور اپنے سینے پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں”(سورۃ النور، آیت نمبر 31)

اسی طرح مردوں کو حکم دیا:” اے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! کہہ دیجئیے مسلمان مردوں سے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی ناموس کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کی بات ہے بے شک اللہ تعالی کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ عمل کرتے ہیں۔”(سورۃ النور، آیت نمبر 30)

انہی احکامات پر عمل کرتے ہوئے روئے زمین کی سب سے پاکباز ہستیاں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے قیامت تک آنے والی خواتین اور بچیوں کے لیے آئیڈیل قرار دی جانے والی مقدس و محترم امہات المومنین اور صحابہ و صحابیات نے بھی ہمیشہ اپنے طرز زندگی سے مومن عورتوں اور مردوں کو “حیا” کو اپنائے رکھنے کی تلقین کی۔

میری بات مکمل ہونے پر عالیہ مسکرائی اور بولی: “میں بھی ہمیشہ ان احکامات کی پابندی کروں گی اور اپنی ذات کو ان حدود و قیود میں رکھوں گی جو میرے رب نے میری ہی بھلائی کے لیے قائم کی ہیں اور “حیا” کے زیور سے خود کو مزین کروں گی۔ ان شاء اللہ” عالیہ نے زیرِ لب کہا، گویا خود سے عہد کر رہی ہو۔