گرین صنعتوں کا ناگزیر تقاضا

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے عالمی چیلنجز کے تناظر میں دنیا میں ماحول دوست یا گرین توانائی کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ کم کاربن ترقی کی جستجو کی جائے اور ایسے ترقیاتی طریقے اپنائے جائیں جو فطرت سے ہم آہنگ ہوں، ان میں گرین توانائی کی جانب منتقلی کو بھی دنیا کی مشترکہ خواہش قرار دیا جا سکتا ہے۔دنیا میں فوسل فیول کی حوصلہ شکنی کے حوالے سے فعال عالمی اداروں کا یہ کہنا ہے کہ روایتی ایندھن سے گرین توانائی کی منتقلی پر لاگت کم آتی ہے اور حکومتوں، کاروباری اداروں اور بہت سے تجزیہ کاروں کی توقع سے کہیں زیادہ، تیزی سے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں اس نقطہ نظر کو بھرپور انداز سے ثابت بھی کیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے گرین توانائی پر آنے والے اخراجات میں مسلسل کمی آئی ہے، یوں ماحول دوست توانائی کی جانب تیز رفتار منتقلی نمایاں انتخاب بنتا چلا جا رہا ہے۔

ماحول دوست توانائی کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں چین سرفہرست ہے جہاں نت نئی اختراعات کی بدولت قابل تجدید توانائی معاشرے کا ناگزیر جزو بن چکی ہے۔ابھی حال ہی میں چینی حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ ملک کی نئی توانائی کی انسٹال شدہ صلاحیت گزشتہ سال کے آخر میں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی، جس نے چین میں توانائی اور بجلی کی صنعتوں کی سبز تبدیلی کو آگے بڑھایا ہے۔گزشتہ سال ہوا اور شمسی توانائی کی وجہ سے قابل تجدید توانائی کی پیداوار میں ریکارڈ اضافے کا مطلب ہے کہ اس شعبے سے پیدا ہونے والی گرڈ سے منسلک بجلی کی نصب شدہ صلاحیت 2022 کے آخر میں 760 ملین کلو واٹ کے مقابلے میں بڑھ کر 2023 کے آخر تک 1.05 بلین کلو واٹ ہو چکی ہے۔ یہ مجموعی طور پر نصب شدہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا 36 فیصد ہے، جو 2022 کے آخر سے 6.4 فیصد پوائنٹ کا اضافہ ہے۔

مذکورہ اعداد و شمار کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ، چین کی توانائی اور بجلی کی صنعت نے توانائی کی فراہمی کے ایک نئے نظام کی تعمیر میں تیزی لائی ہے، جس میں تنوع اور تکمیل کی خصوصیت ہے۔ توانائی کا ڈھانچہ، جو پہلے کوئلے پر اپنے بنیادی ذریعہ کے طور پر انحصار کرتا تھا، اب سبز اور متنوع قابل تجدید ذرائع میں تبدیل ہو گیا ہے. یہ تبدیلی انسٹال شدہ صلاحیت میں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، جس سے غیر فوسل ایندھن توانائی کا حصہ 50 فیصد سے زیادہ ہوگیا۔چین کے لیے یہ امر بھی باعث اطمینان ہے کہ قابل تجدید توانائی کی مجموعی تنصیب شدہ صلاحیت 2024 کے آخر تک تقریباً 1.3 بلین کلو واٹ تک پہنچنے کی توقع ہے، جو مجموعی انسٹال شدہ صلاحیت کا 40 فیصد ہے اور پہلی بار کوئلے سے توانائی کی پیداوار کو پیچھے چھوڑ جائے گی۔

دوسری جانب یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ چین اپنے گرین توانائی کے تجربات کا باقی دنیا کے ساتھ مسلسل تبادلہ کر رہا ہے اور اس کی سرفہرست مثال بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے شراکت دار ممالک ہیں۔چین کی جانب سے حالیہ برسوں میں ماحول دوست ترقی میں اپنے تجربے اور ٹیکنالوجی کے ساتھ، بی آر آئی پارٹنر ممالک میں کم کاربن تبدیلی کے لئے حمایت میں اضافہ کیا گیا ہے۔اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ بھی گرین انفراسٹرکچر، توانائی اور نقل و حمل میں تعاون مزید گہرا ہونے والا ہے۔ بی آر آئی نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران ویسے بھی ماحولیاتی تحفظ پر مبنی منصوبہ جات میں قابل ذکر نتائج دیکھے ہیں۔ریلوے لائنوں اور ہائیڈرو، ونڈ اور سولر پاور پلانٹس کی ایک سیریز مکمل اور آپریشنل کردی گئی ہے، جس سے یقیناً ترقی پذیر ممالک کے سبز اور کم کاربن ترقی کے حصول کے خواب کو پورا کرنے میں مدد ملی ہے۔

چین نے پاکستان سمیت 100 سے زائد ممالک اور خطوں کے ساتھ گرین انرجی تعاون کے منصوبوں پرعمل درآمد کیا ہے، اور بی آر آئی کے شراکت دار ممالک کے ساتھ سبز اور کم کاربن توانائی میں اس کی سرمایہ کاری ان ممالک میں روایتی توانائی کے منصوبوں میں اس کی سرمایہ کاری سے کہیں زیادہ ہے۔یوں، چین گرین ترقی کے سفر میں باقی دنیا کو ساتھ لے کر چل رہا ہے اور یہی چین کی اشتراکی ترقی کا حقیقی تصور ہے۔