حیا ہی پروانہ خیر

ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔

آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔

ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں

یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟

کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا

“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”

“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا

تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”

ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔

میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے

“جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو”

نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا

جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔

لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ

” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “

لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں

اس ویلنٹائن ڈے کو ہی دیکھ لیجیے۔ہر سال خدا خوفی رکھنے والا ایک طبقہ چیخ چیخ کر اپنے اپنے طریقوں سے لوگوں کو اس دن کی تاریخ و جملہ اعتراضات بتانے کی کوشش کررہا ہوتا ہےلیکن جس پر رینگنی نہیں تو جوں بھی نہیں رینگتی اور وجہ صاف ہے نہ خدا خوفی ہےنہ دین کا علم۔ نہ قرآن و حدیث سے کوئی روشنائی ہے اور ہی کوئی تاریخ سے دلچسپی ہے کہ ذرا ان مغرب والوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں کہ بے حیائی کی جس نہج پر وہ آج پہنچ چکے ہیں تو کس طرح حیا کے دامن کو چاک کرتے ہوئے انہوں نے اپنی تاریخ کو سیاہ صفحات سے بھرا ہے۔

آج صبح کچھ ایسا ہی مواد میرے زیر مطالعہ تھا دنیا میں شخصی آزادی سے لائے جانے والے انقلاب بظاہر تو آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں لیکن ان کے نتائج انسانیت کی اخلاقی گراوٹ کا بدترین عملی نمونہ ہیں شخصی آزادی اور بے حیائی کو فروغ دینے والے قلم کاروں نے انسان کو حیوان کے درجے پر لا گرایا ہے جبلی خواہشات کے پیچھے لگا کر فطرت کی آواز کو بھلوادیا۔

آج کا مسلمان جہاں مغرب کی مادیت پرست فکر کے پیچھے اندھا دھند بھاگ رہا ہے وہیں ان کے شرم وحیا سے خالی معاشرے کے اقدار کو لینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا مادیت پرست سوچ کے حاملین اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔

اگر آپ سب یہ کہتی ہیں کہ ہم حیا کے منافی کوئی کام نہیں کررہے تو اتنا اعتراض کیوں؟

ٹھیک ہے میں آپ کی یہ بات سمجھتی ھوں لیکن ذرا دیکھیں تو جس دن کے نام اور علامات کو استعمال کر کے آپ یہ تفریح چاہ رہی ہیں اس کا ایجنڈا کتنا خوفناک ہے جو انسان کو انسان نہیں رہنے دیتا بلکہ جانور بنا دیتا ہے کیا میں آپ کو حیا سے عاری ایک قوم کا حال سناؤں کہ جب جنگ میں اسے اپنے مخالفین پر غلبہ حاصل ہو گیا تو اس نے مردوں کو عورتوں سے علیحدہ کیا مردوں کو جہاں اذیت دےدے کر جان سے مار دیا وہاں پچاس ہزار عورتوں کوآٹھ ماہ تک زنا بالجبر کا نشانہ بنائے رکھا یہاں تک کہ سات سال تک کی بچیاں بھی ان کی درندگی سے محفوظ نہ رہ سکیں،،،،،کلاس میں موجود تمام لڑکیوں کی حالت یہ سن کر ابتر ہوگئی جن لڑکیوں نے خود کو سرخ رنگ سے مزین کیا تھا ان کی حالت زیادہ بری تھی ایک رنگ ان پر آتا اور ایک رنگ جاتا تھا۔

اورآپ جاننا چاہیں گی یہ قوم کون تھی؟ حنا نے سوالیہ نظروں سے سب کی طرف دیکھا پھر اپنی بات کو آگے بڑھایا۔ بہت زیادہ دور نہیں گئی میں۔۔۔ بس پچھلی صدی کے اختتامی سالوں کی بات ہے جب سربیا کی آرمی نے بوسنیا کے مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔

یہ تھا حیا سے محروم اس قوم کا حال، جس نے اپنے ہی جیسے انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا تاریخ ایسے دل سوز واقعات سے بھری ہوئی ہے اور اگر آپ اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھیں کہ جب مسلمان کسی قوم پر فاتح بن کر جایا کرتے تھے تو وہ غیور اور باحیا مسلمان ہی تھے جن کے اخلاق، غیرت اور حیا سے متاثر ہو کر لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے اور اسلام پھیلتا چلا گیا۔

لیکن افسوس! آج کا مسلمان اپنی شناخت کھوچکا ہے غیروں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی ہستی ہی بھلا بیٹھا ہے۔ حنا نے ٹھنڈی آہ بھری پھر کچھ وقفہ دے کر پھر سے مخاطب ہوئی۔

دیکھو پیاری لڑکیو! میں اس رنگ کو بُرا نہیں کہتی یہ تو اللہ کے بنائے ہوئے رنگوں میں سے ایک خوبصورت رنگ ہے نہ ہی میں تفریح کرنے کو برا کہتی ہوں اسلام نے ہمیں ہرگز خوشیاں منانے سے منع نہیں کیا لیکن بس یہ دھیان رکھیں یہ خوشیاں کہیں شیطان کا دھوکا تو نہیں جو ہمیں ان چھوٹی چھوٹی بے ضرر خوشیوں سے گزار کر آہستہ آہستہ اپنی پیروی کرنا سکھا رہا ہو،،،،،،قرآن میں اِسی لئے تو کہا گیا ہے نا لڑکیو! کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ،،

ہمیں بے حیائی کی تشہیر کرنے والے تہواروں میں شامل ہو کر شیطان کا بندہ نہیں بننا بلکہ ان تہواروں سے نفرت کا اظہار کر کے رحمان کا بندہ بننا ہے باحیا بننا ہے سمجھ رہی ہیں نہ آپ سب؟

حنا نے بغور سب طالبات کے چہروں کو دیکھا پھر سامنے رکھے نوٹس کی طرف جھک گئی۔ وہ اپنا کام کرچکی تھی باقی کا کام ان لوگوں کا تھا جو آنکھ، کان اور دل رکھتے ہوں۔