صبر اور دعا کا پھل

کاشان پانچویں جماعت کا طالب علم تھا کہ اچانک لکنت کا شکار ہوا ۔ شروع میں سب ٹھیک رہا مگر وقت گزرنے کے ساتھ لکنت بڑھتی گئی۔ اسکول میں، محلے میں ہر جگہ اس کے ہم عمر بچے اس کا مذاق اڑاتے مگر وہ کبھی غصہ نہ ہوا ۔ میٹرک تک تعلیم مکمل کی اور آگے اسے مستقبل تاریک دکھائی دیتا کیوں کہ اسے معلوم ہو گیا کہ ہمارا معاشرہ کسی کے ادھورے پن پر کس قدر خوش ہوتا ہے۔ اپنے ہوں یا بیگانے اس کی لکنت کا مذاق اڑاتے رہتے تھے مگر اس کی ماں اسے ہمیشہ حوصلہ دیتی۔ ایک روز اس کی ماں نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور کہا ” بیٹا ! میری بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنا کہ اللہ پاک نے اس بزم ہستی میں کسی کو ادھورا نہیں بنایا ۔ ہر شخص میں ایک چھپی ہوٸی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور آپ میں بھی وہ صلاحیت موجود ہے بس ضرورت ہے تو ایک استاد کی جو مناسب وقت پر تمھاری اس پوشیدہ صلاحیت کو نکھار کر سامنے لائے گا اور تم کامیاب انسان بنو گے” ۔ کاشان اپنی ماں سے تعجب بھرے لہجے میں مخاطب ہو کر بولا ” پیاری امی جان ! کیا میں اپنی پوشیدہ صلاحیت کو خود تلاش نہیں کر سکتا ؟ ” ماں مسکراتے ہوئے بولی” بیٹا ! منزل کو پانے کے لیے مختلف دشوار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ایک سہل راستہ بھی ہوتا ہے اگر ایک راہنما ہو گا تبھی انسان اپنی منزل کو پا لیتا ہے ورنہ وہ بھٹک جاتا ہے” ۔ کاشان دل ہی دل میں ہر وقت سوچھتا رہتا کہ مجھ میں کیا خاص ہو گا ؟ آج لکنت کے شکار نوجوان کو کون موقع دیتا ہے جب بےروزگاری نے ہر طرف اپنے ڈیرے ڈالے ہوں۔

وقت گزرتا گیا کاشان نے محنت کی ، کبھی کسی بدخصلت کا شکار نہ ہوا اور اللہ پاک سے دعا کرتا رہا کہ اسے اس لکنت سے نجات دلائے اور اسے زمانے میں قابل احترام بنائے ۔ گریجویشن مکمل کی اور ایم۔اے اردو میں داخلہ لیا اور یہ اس کی زندگی میں ایسی بہار ثابت ہوا جس کی خزاں نہیں تھی۔ پھر اس نے قلم سے رشتہ جوڑا اور مضامین لکھنے شروع کیے۔ ایم۔ اے اردو کی ڈگری مکمل کی اور اب اس کا شمار ایک کامیاب رائٹرز میں ہوتا تھا ۔ بچوں کو پڑھانے کی جانب قدم بڑھایا جوکہ مشکل تھا مگر اسے خود پر بھروسا تھا کہ میں اس لکنت کو باآسانی شکست دے سکتا ہوں اور اس نے ایسا کر دکھایا۔ اب وہ بلند حوصلے کے ساتھ کلاس میں داخل ہوتا اور عام اساتذہ کی طرح بغیر لکنت کے پڑھاتا کبھی کبھار اگر کسی لفظ یا جملے پر لکنت ہو بھی جاتی تو بچے کبھی مذاق نہیں اڑاتے ۔

اعلی تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ کاشان میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔ ایم۔ فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری مکمل کرتے ہی ڈاکٹر کاشان احمد کے نام سے پکارا جانے لگا۔ ایک پرائیوٹ اسکول میں پڑھانے کےساتھ اپنی محنت جاری رکھی اور کئی کتابوں کا مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ وہ صدر معلم کے عہدے پر فائز ہونے میں کامیاب ہوا ۔ زندگی میں وہ سب حاصل کرتا جا رہا تھا جس کی تمنا اس نے کی تھی اور اسے ماں کی وہ بات آج بھی یاد تھی کہ ” ہر کامیاب شخص کی ترقی کا راز استاد کی محنت میں پوشیدہ ہوتا ہے “۔ آج جب وہ خود کو دیکھتا ہے تو اس مقام تک کیسے پہنچا تو اسے ہر دور میں اپنے اساتذہ کی محنت یاد آتی ہے کیوں کہ قلم کی راہ پر چلانے والا اس کا استاد تھا ، ایک کامیاب معلم بنا تو اس استاد کی وجہ سے جس نے اسے حوصلہ دیا کہ یہ سب انسان کے ذہن کا خمار ہے لکنت کچھ نہیں ہوتی اگر آپ پرعزم ہیں اور کچھ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تو آپ اس پر عبور حاصل کر سکتے ہیں ۔ وہ استاد ہی تھا جس کی زیر نگرانی ڈاکٹر کاشان ایک کامیاب ادیب بنا ، اور وہ استاد کی محنت ہی تھی جس کی وجہ سے آج وہ صدر معلم کے عہدے پر فائز ہوا ۔

وقت گزر جاتا ہے چاہے مایوسی میں ہو یا محنت میں ۔ مایوسی کا انجام مایوس کن ہوتا ہے اور محنت اور صبر کا پھل ملتا ہے۔ اپنے اردگرد ان بچوں کو دیکھیں جو باصلاحیت تو ہیں مگر راہ نمائی سے محروم ہیں ۔ جن کی کسی کمزوری پر لوگ ہنستے ہوں جب کہ وہ کمزوری نہیں وہ احساس کمتری ہو کیوں کہ انسان جیسا سوچھتا ہے ویسا ہی بُت اس کے سامنے بنتا ہے۔ بےشک اللہ پاک کبھی کسی کی محنت کو راٸیگاں نہیں ہونے دیتا۔ صبر اور دعا کا پھل ضرور ملتا ہے ۔