یومِ یکجہتی کشمیر

قوموں کی زندگی میں آزادی کی بہت اہمیت ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کوئی بھی منظم گروہ تب ہی اصل معنوں میں قوم بنتا ہے جب وہ آزادی کی اہمیت ، مقام اور حیثیت کو سمجھنے لگتا اور اسکے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے ۔ یہ جذبہ حریت ہی ہوتا ہے جو لوگوں کو متحد ہونے کا درس دیتا ہے قومیں آزادی کے اسی جذبے کو زندہ رکھنے کے لئے جان و مال  تک کی قربانی دیتی ہیں ۔

اگرچہ کہ ہم اکیسویں صدی میں زندہ ہیں لیکن دنیا کی بیشتر اقوام اب بھی غلاموں کی سی زندگی بسر کر رہی ہیں ، ان اقوام میں ایک اہم قوم مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیری مسلمان ہیں جو انیس سو سینتالیس سے بھارتی تسلط میں ہیں اور آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں ۔ مقبوضہ وادی میں تعلیمی ادارے اکثر بند رہتے ہیں ، بچے اسکول بھی نہیں  جا سکتے، آئے دن کی ہڑتالوں سے کاروبار زندگی متاثر ہوتا ہے اور ایک عام کشمیری غریب سے غریب تر ہوتا جاتا ہے ۔

مقبوضہ وادی میں انٹرنیٹ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بند کر دئیے جاتے ہیں تاکہ دنیا بھر کے لوگوں کو کشمیر پر ہونے والے مظالم کا علم تک نہ ہو سکے ۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق جنوری ۱۹۸۹ سے رواں سال جنوری تک مقبوضہ کشمیر میں چھیانوے ہزار دو سو نوے  افراد کو شہید کیا گیا ہے جن میں سے سات ہزار تین سو ستائیس  کو جیلوں میں قید کرکے اور پھر اذیتیں دے کر شہید کیا گیا ۔ اسی طرح اس عرصے کے دوران ایک لاکھ دس ہزار پانچ سو دس مکانات کو بھی تباہ کیا گیا ۔

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر

کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر

مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقوام  متحدہ کے کمیشن نے پانچ جنوری انیس سو انچاس کوایک جامع قرارداد منظور کی تھی جسے پاکستان اور بھارت نے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا ۔ اس قرارداد کی رو سے دونوں ممالک کو پابند کیا گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر میں جنگ بندی کی جائے ، دونوں ممالک اپنی فوجیں وہاں سے نکالیں اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے رائے شماری کا حق دیا جائے کہ اگر وہ چاہیں تو پاکستان کے ساتھ الحاق ( پاکستان میں شامل ) کریں یا بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کریں یا پھر الگ حیثیت میں ایک الگ ملک بن کر رہیں ۔

ان قراردادوں کے تحت اقوام متحدہ کے کئی مبصرین بھی تعینات ہوئے اور پچاس کی دہائی میں رائے شماری ( حق خودارادیت ) کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر کاوشیں بھی ہوئیں لیکن بھارت نے ہمیشہ ہٹ دھرمی قائم رکھی ۔ دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کی تیرہ اگست انیس سو اڑتالیس اور پھر پانچ جنوری انیس سو انچاس کی قراردادیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ کشممیری مسلمان ایک الگ قوم ہیں ۔ ان کا مذہب اسلام  رہن سہن ، زبان ، ثقافت ہر چیز ہندووں سے الگ ہے اور آزادی کا حصول ان کا بنیادی حق ہے ۔

یوم یک جہتی کشمیر منقسم کشمیر کے سبھی حصوں میں بسنے والے کشمیریوں سے اظہار تک جہتی کا دن ہے یہ دن سن انیس سو پچھتر سے منانے کا سلسلہ اب تک جاری ہے جس میں پاکستان اور دنیا کے کئی ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کی اکثریت احتجاجی جلسے کرتی ہے اور سرکاری سطح پر کئی اہم تقریبات کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے ۔

اگر یوم یک جہتی کشمیر منانے کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو علم ہوگا کہ اس دن کو منانے کا آغاز انیس سو بتیس میں تقسیم کشمیر سے قبل متحدہ پنجاب سے ہو گیا تھا لیکن یہ سلسلہ ٹوٹتا اور بنتا رہا اور کشمیر کے ساتھ یک جہتی کے لئے کوئی خاص دن مقرر نہیں ہوا تھا ۔شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے وقت انیس سو پچھتر میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اٹھائیس فروری کو کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا دن منانے کا اعلان کیا ۔ یہ دن منانے کی تجویز سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو دینے والوں میں جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اس وقت کے صدر سردار محمد ابراہیم خان بھی شامل  تھے ۔ تاہم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے ایک دن مخصوص کرنے کا مطالبہ انیس سو نوے میں جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد نے میاں نواز شریف کی مشاورت سے کیا اور اس کی فوری تائید  اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی کی ۔

اگرچہ کہ جس حساب سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے عملی اقدامات ہونے چاہیے تھے وہ اب تک نہیں ہو سکے کیونکہ ایک طرف عالمی ادارے بین الاقوامی سامراج کے ہاتھوں  کھلونا بنے ہوئے ہیں تو دوسری جانب بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آ رہا اور مقبوضہ کشمیر کو جو ایک حل طلب معاملہ ہے اپنا آئینی حصہ قرار دے چکا ہے۔اور تیسرا صرف پاکستان کے یک طرفہ اقدامات سے مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کیا جا سکتا ۔

ایک طرف بھارت دنیا بھر میں اپنی نام نہاد جمہوریت کا پرچار کرتا ہے تو دوسری طرف مظلوم کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا کر ان کے حق خودارادیت کو دبا رہا ہے ، مقبوضہ کشمیر پر اتنے عرصے سے جو ستم کئے جا رہے ہیں وہ تو الگ رہے لیکن مودی سرکار نے پانچ اگست ، دو ہزار انیس کو  مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بھی ختم کر دی اور کشمیر کو متحارب ( جنگ زدہ ) علاقہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اسے بھارت کا حصہ قرار دیا جو کہ سراسر زیادتی اور انسانی حقوق کے منافی عمل ہے ۔کشمیر تو جنت نظیر ہے جس کے ہر گوشے میں کشمیری مجاہدین نے اپنے لہو سے دین اسلام کے چراغ روشن کئے ہیں ۔

یاران وطن کہتے ہیں ، کشمیر ہے جنت

جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی

جبکہ ہمارے قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اگرچہ کہ کشمیریوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دئیے گئے ہیں ان کے مکانات اور دکانیں جلائی اور تباہ کی گئیں ،  انہیں تعلیمی اور سماجی اعتبار سے نقصان پہنچایا گیا ، کتنے ہی بچے یتیم ہوئے اور بہت سے مظلوم کشمیریوں کو شہید کیا گیا لیکن آج بھی ہر کشمیری بچہ آزادی کی اہمیت کو محسوس کرتا ہوا ہندو بنیے کا دلیرانہ انداز میں مقابلہ کر رہا ہے اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکار رہا ہے ۔ آزادی کا حصول ان کا عزم ہے اور کشمیری اس شعر کی عملی تفسیر بن چکے ہیں ۔

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ۔

کشمیری عوام یہ جان چکے ہیں کہ آزادی کی منزل قریب ہے اور جلد ہی وہ آزادی کی کھلی فضا میں سانس لیں گے ۔