ایک منفرد سیاستدان

سیاسی نقطہ نظر میں اختلاف کے باوجود دوستیاں برقرار رہ سکتی ہیں اور رہنی چاہئیں۔رائے کے اختلاف کو ذاتی دشمنی کی شکل دینا نہ صرف تنگ نظری ہے بلکہ سرا سر جہالت ہے۔ میرا ایک حلقہ ء احباب ہے۔ ہم میں سے کوئی مسلم لیگ کی طرف ذہنی جھکاو رکھتی ہے،کوئی پی ٹی آئی کوئی کسی اور جماعت کی طرف مگر ہم باہم خیر خواہی اور دوستی کے لازوال رشتے میں بندھے رہتے ہیں۔ ہم سہیلیاں اکٹھی ہوں تو بسکٹس، نمکو، خشک میوہ جات اور چائے پر گپ شپ کا دور خوب چلتا ہے۔

آج کل چونکہ انتخابات 2024 سر پر ہیں، اس لیے ہماری گپ شپ میں الیکشن 2024 ہی کا موضوع سرفہرست رہتا ہے۔ حالیہ بیٹھک میں بھی یہی موضوع تھا۔ متفقہ طور پر تجویز سامنے آئی کہ آج ذرا اپنے ملک کے بڑے بڑے سیاست دانوں کی عیاشیوں پہ بات کی جائے۔ یہ لوگ انتخابی مہم چلاتے ہیں تو پانی کی طرح سرمایہ بہاتے ہیں۔ پھر جب اقتدار مل جاتا ہے تو عوام کے خون پسینے کی کمائی بھی نچوڑ لیتے ہیں۔ یہ لوگ خود عیش کرتے ہیں لیکن عوام خود کشیاں کرتے ہیں۔

اب جب موقع ملا تو لگا ہر کوئی دل کی بھڑاس نکالنے۔

سرے محل کا تذکرہ ہوا، اتفاق فاونڈریزاور شوگر ملز کے قصے بیان ہوئے، سندھ کے غریب ہاریوں کی ناگفتہ بہ حالت اور بڑے بڑے زرداریوں کی دولت کے پہاڑوں کا ذکر ہوا، بلوچستان کے عوام کے احساس محرومی اور وہاں کے نوابوں کی لمبی، گہری نیند کی بات ہوئی، یوں محل سے شروع ہو کے توشہ خانہ تک بات جا پہنچی۔

ہماری ایک دوست ڈاکٹر طاہرہ نے دستاویزی فلم behind closed doors کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ’صحافی ارشد شریف مذکورہ فلم میں بتاتے ہیں کہ نواز شریف خاندان نے اپنے نوکروں کے نام سے اکاؤنٹس کھولے اور ان میں اربوں روپے ٹرانسفر کیے، یوں منظم انداز میں کرپشن کی ۔۔۔۔۔۔‘

آن لائن بزنس کرنے والی ہماری ایک ساتھی نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پیش کی:’

’آصف علی زرداری کی حکومت میں کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے مطابق پاکستان کرپشن کی بلند ترین سطح پر پہنچا تھا، تب اس کا نمبر 139 تھا۔ نواز شریف حکومت میں 116 اور 117 رہا۔ پی ٹی آئی دور حکومت کے آخری سال میں یہ نمبر 140 تھا۔‘

اس کے بعد ہر ایک نے سیاست دانوں کی کرپشن اور عیاشیوں کے مزید قصے سنائے۔ پھر جب سب کی زبانیں بول کے تھک گئیں تو خاموشی چھا گئی۔ پھرایک، ایک گلاس جوس نوش جاں کیا۔ تب انہیں میرے بارے میں خیال آیا کہ میں نے تو کوئی قصہ سنایا ہی نہیں۔ ایک نے مجھے مخاطب کیا

’تم خاموش بیٹھی ہو، کچھ تم بھی بولو۔‘

’ دوستو! میں انہی سیاست دانوں میں سے ایک مختلف اور منفرد سیاست دان کے کچھ قصے سنانا چاہتی ہوں۔ آج ایک ایسے سیاستدان کی عیاشیوں کا حال بتاؤں ،

ہاں! اس کے قصے سنانے سے پہلے ایک وعدہ لینا چاہتی ہوں کہ اگر آپ اس سیاست دان کی انفرادیت کے قائل ہو جائیں تو پھر اس کا ساتھ دینے کا عہد کرنا ہے۔

سب بولے ’منظور ہے، منظور ہے۔‘

دوستو! یہ بات ہے اس دور کی جب خیبر پختونخوا میں اس سیاست دان کو اختیار ملا تھا۔ صوبے کا سینئر وزیر اور وزیر خزانہ بنتے ہی اس نے حکم جاری کیا کہ آج کے بعد

1:میرے دفتر/ ماتحت دفاتر میں ائیرکنڈیشنر نہیں چلے گا۔

2:میں کوئی پروٹوکول نہیں لوں گا

3:تمام ماتحت آفیشلز سرکاری کفایت شعاری کی ہدایات پر عمل کریں گے

4:کے پی کے سے سینما گھروں کے ہورڈنگز اور بورڈ اتار دیے جائیں۔

5:خواتین کی تصاویر والے اشتہارات والے بورڈ اتاردیے جائیں

6:میرے گھر کے باہر کوئی سرکاری سکیورٹی گارڈز نہیں ہوں گے

یہ منفرد سیاست دان سفر کیسے کرتا تھا؟ یہ بھی سن لیجیے۔

راولپنڈی کے نواحی مقام روات کے قریب ٹریفک بلاک تھی۔ ایک بس والے کو پولیس والا گالیاں دے رہا تھا اور گاڑی کی باڈی پر ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہا تھا’ گاڑی ایک طرف کرو، پیچھے جھنڈے والے کی گاڑی ہے۔ سنتے نہیں ہو؟ پیچھے وزیر کی گاڑی ہے‘‘

گاڑی میں بیٹھے ایک شخص نے ڈرائیور سے پوچھا ’یہ پولیس والا کیا کہتا ہے؟‘

ڈرائیور نے جواب دیا’ وہ کہتا ہے کہ پیچھے کسی وزیر کی گاڑی ہے، اس لیے گاڑی کو ایک طرف کرو‘۔

اس شخص نے کہا ’ اسے بو لو کہ اس گاڑی میں بھی ایک وزیر بیٹھا ہے، یہ بھی ایک وزیر کی سواری ہے‘۔

ڈرائیور کہنے لگا:’بابا! یہ گاڑی تو کسی وزیر کی نہیں، میں کیسے کہوں؟

وہ شخص بولا۔ اس میں خیبر پختونخوا کا سینئر وزیر / وزیر خزانہ بیٹھا ہوا ہے۔ اور وہ میں ہوں‘۔‘

ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال کلبلا رہا ہو کہ آخر وہ کون سا سیاست دان ہے۔ میں ایک اشارہ دیتی ہوں، بوجھ سکو تو بوجھ لو۔ وہ سن دو ہزار تیرہ میں خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت میں سینئر وزیر اور وزیر خزانہ تھا۔

ایک روز ایک رکشہ پنجاب اسمبلی کے سامنے رکا۔ اس میں سے ایک مسافر ہاتھ میں بیگ اٹھائے نیچے اترا اور اسمبلی ہال کے اندر جانے لگا۔ سکیورٹی والوں نے روک لیا۔ اس نے کہا ’مجھے اندر جانے دیں، وزیر ہوں‘۔

سیکورٹی والا بولا ’منسٹر ایسے ہوتے ہیں بابا۔۔۔؟

رکشہ سے اترنے والے شخص نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہی کو فون کیا ’تمہارا سکیورٹی والا مجھے اندر آنے نہیں دے رہا‘۔

چوہدری پرویز الہی ہنستے ہوئے خود گیٹ تک پہنچ گئے اور بولے’آپ کے پاس گاڑی نہیں تھی، فون کر دیتے، میں گاڑی بھیج دیتا۔ مسافر بولا ’منصورہ( جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر) میں آیا ہوا تھا، وہاں سے رکشہ لیا اور یہاں آگیا۔ کوئی مشکل ہوتی تو آپ کو فون کرلیتا۔

ایک روز اس سینئروزیرکو پشاور سے اسلام آباد آنا تھا، پرویزخٹک وزیراعلیٰ تھے۔ کہنے لگے ’میرے ساتھ ہی آجائیں‘۔

جواب دیا کہ اگر بغیر پروٹوکول چلیں گے توآپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ چنانچہ وزریر اعلیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا۔

اب اس سینئر وزیر کے ایک غیرملکی سفر کا احوال بھی سن لیں۔ وہ جرمنی کے سرکاری دورے پر گیا۔ وہاں ایک اعلیٰ درجے کے ہوٹل میں کمرہ بک تھا۔ سینئر وزیر نے استفسارکیا کہ اس کمرے کا کرایہ کون ادا کرے گا؟ جواب ملا ’ پاکستانی سفارت خانہ‘۔

وزیر نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یہاں قریب میں کوئی اسلامک سنٹر ہے؟

’جی ہاں ‘۔

’کتنا دور ہے؟‘

جواب دینے والے نے فاصلہ بتایا۔ بولے ’مینجر کو چابیاں واپس دے دو۔ بکنگ کینسل کرو۔ میں غریب ملک کےغریب صوبے کا نمائندہ ہوں، اس لیے یہاں نہیں ٹھہر سکتا‘۔

چنانچہ وفد اسلامک سنٹر میں ٹھہرا۔ وہاں سینکڑوں پاکستانیوں کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں۔

’اور آگے سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘

’‘ رکو۔۔۔۔ رکو یار!

شفیقہ بیگم نے کچھ کہنا چاہا مگر آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ پھر کہنے لگی:

’ہمیں پتہ ہی نہیں تھا، کوئی ایسا شفاف کردار بھی اس ملک میں ہے۔ تم مزید کچھ نہ بتاؤ، یہ جو کچھ بتایا ہے، اس کی بنیاد پر خدا کی قسم! ہمارے لیے ضروری ہوچکا ہے کہ ایسے لیڈر کا ساتھ دیا جائے‘۔

ہماری کم گو سہیلی مجیدہ ابھی تک خاموش بیٹھی تھیں، آہستگی سے بولیں ’اوہو! اس سیاستدان کا نام بھی بتاؤ مجھے۔

لو ۔۔۔ ان صاحبہ کو نام نہیں پتہ چل سکا ابھی تک۔۔۔۔‘ سب کھلکھلا کے ہنس پڑیں۔’

میں نے مجیدہ کے دونوں کندھے پکڑے اور کہا ’تمھیں حروف بتاتی ہوں، جوڑ لو انھیں: س ر ا ج ا ل ح ق ۔۔۔۔۔

وہ چیخنے کے سے انداز میں پکار اٹھی ’ سراج الحق‘

انجینئر ناصرہ خاتون بولیں’ تو۔۔۔۔ آؤ! پھر ایک فیصلہ کر لیں۔۔۔‘

بالکل ایک ہی فیصلہ، ابھی اور آج ہی کہ حل صرف جماعت اسلامی۔۔۔۔

اور پھر میں نے سب سے ہاتھ کھڑا کروا کے گویا عہد لے لیا۔

اسی اثنا میں گرما گرم چائے اور تازہ، باریک باریک جلیبیاں بھی آگئیں۔

شاہدہ جس کی آواز قدرت نے شاید نعرے لگانے کے لیے ہی بنائی تھی، نے نعرہ لگایا اور ۔۔۔۔۔۔۔پھر۔۔۔۔۔ ہم سب نےجلیبیوں کی خبر لینے کا ارادہ کر لیا ۔