عدالت اور سیاست

دنیا کے جن ملکوں میں جمہوریت ہے وہاں عدلیہ کو جمہوریت کا اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔ جمہوریت کی تعریف میں لکھا ہے کہ عدلیہ جمہوریت کی ایک اہم شاخ ہے جس کے بغیر جمہوریت مکمل نہیں ہے۔ سیاسیات کے مطابق عدلیہ ایک آزاد ریاستی ادارہ ہے جس کا کام  لوگوں کو انصاف دینا ہوتاہے۔

ریاست کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ریاست میں جو بھی طرز حکومت ہویا ریاست چلانے کا جو نظام ہو اس کا احترام ریاست اور ریاستی اداروں پرلازم ہے۔ ہر ادارے کے اختیارات اس ریاست کے آئین میں واضح ہیں جن کے تحت ہر ادارہ کام کرے گا اور کسی اور ادارے میں مداخلت نہیں کرے گا۔ لیکن پاکستان میں نظام کچھ یوں ہے کہ کہا جاتا ہے کہ عدالتوں سے جو فیصلے آتے ہیں ان میں قانون کم  پسند اور ناپسند زیادہ نظر آتی ہے۔

عدالتوں کے فیصلوں پر تنقید کرنا ہر شہری کا حق ہے مگر ان فیصلوں پر اگر قانونی ماہرین تنقید کریں  تو پھر ان فیصلوں پر سوالات تو اٹھتے ہیں۔ پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ  اکثر متنازع رہی ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ عدلیہ کے اہم فیصلے کہیں اور سے آتے ہیں اور اگر دیکھا جائے تو بہت سے مقدمات میں یہ حقیقت بھی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں چار مارشل لا لگے  اور ان چاروں مارشل لا کوعدلیہ نےتحفظ دیا۔ مشرف کے مارشل لا کو  سپریم کورٹ آف پاکستان نے درست قرار دیا اور مشرف کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دیا  جس کا مطلب ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں نے ہی آمریت کو  پروان چڑھایا  اور اس عمل کو درست قرار دیا۔

کیا عدالتوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور تحریک پاکستان آزادی کے اصولوں کے اپنا یا ہے؟  اس سوال کا جواب عدالت کے پاس بھی نہیں ہے اور ساتھ ہی ساتھ اہم سیاسی فیصلے عدالت نے “یہ جواز پیش کرتے ہوئے کہ ریاست کو بچانا  ہے”قانون کے مطابق نہیں بلکہ  کسی اور کہنے پر کیے جیسا کہ جسٹس منیر نے  مولوی تمیز الدین کے کیس میں قانون کو نظر انداز کیا  تھا۔

ذوالفقارعلی بھٹو کے کیس میں سزا ئےموت کے فیصلے پرسپریم کورٹ پر اعتراضات کیے گئے۔ کیا سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو قانون کے مطابق نااہل کیا تھا ؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ  نواز شریف کو 2018 ء کے الیکشن سے باہر رکھنے کا فیصلہ درست  تھا ؟  اگر درست تھا تو آج کیوں بحال کیا گیا ؟ اس بار انتخابات سے پہلے عمران خان نااہل کرنا ہے  اور پاکستان تحریک انصاف کو بلے کے نشان سے محروم  کرنے کا فیصلہ بھی ذاتی رنجش  زیادہ اور قانون کم نظر آتا ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ عدلیہ قانون کے مطابق بہت کم فیصلے کیے گیے ہیں اور تاریخ بڑی ظالم ہے ہر بات کو یاد رکھتی ہےعدالت  کے معاملات میں اکثر ریاست پر اعتراض ہوتا ہے کہ عدالتی معاملات میں ریاست زیادہ ملوث ہے ۔دنیا کے جتنے سیاسیات کے فلاسفر ز گزرے ہیں وہ سب عوام، جغرافیہ، حکومت اورخود مختاری کو ریاست سمجھتے ہیں۔ بین لاقوامی قوانین کے مطابق ریاست سے  مراد مستقل آبادی، طے شدہ علاقہ ، حکومت اور دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات  میں داخل  ہونے  کی صلاحیت رکھنے والے علاقے کو ریاست کہا جاسکتا ہے۔

ریاست کی تعریف کے حساب سے پاکستان ایک خود مختار ریاست ہے لیکن کیا پاکستان میں  ایک محکمے اور چند لوگوں کو ریاست کہا جاسکتا ہے ؟  کیا کوئی محکمہ یا چند لوگ ریاست کے قوانین سے بالاتر ہوسکتے ہیں ؟ ریاست کی تعریف کے مطابق ہر گز نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست ایک محکمے یا چند لوگوں کا نام نہیں بلکہ عوام،طے شدہ علاقہ اور حکومت کا نام ہے۔ پاکستان بطور ریاست ایک بنیادی نعرہ آزادی کے وقت لگاتھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا للہ  یعنی اللہ کے حکامات کے مطابق ریاست کام کرے گی جیساکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بار بار اپنی تقریروں میں فرمایا کہ ہم نے زمین کا ایسا ٹکڑا حاصل کیا جس میں ہم اسلام کے احکامات کے مطابق عوام کو اپنی زندگی گزارنے کا حق  دیں گے اور فیصلے کریں گے۔

انتخابات  میں عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں اور نمائندے اپنی سرزمین کی ترقی کے لیے دن رات محنت کریں  لیکن بدقسمتی سے چند لوگوں اور ایک محکمے نے اس ملک کا نظام اپنے ہاتھوں میں پچھتر سال سے لے رکھا ہے جس کی وجہ سے آج تک پاکستان میں ایک  بھی صاف اور شفاف  انتخاب منعقد نہ ہوسکا ۔ وہ چند لوگ ہی ریاست، آئین، عدلیہ، عوام اور قانون ہیں جن کے ہاتھ میں سب کچھ ہے، جب چند لوگ ہی ریاست ہیں تو عدلیہ جو ریاست کا جز ہے وہاں کے فیصلے بھی چند لوگوں کی مرضی سے ہیں ہوں گے۔