کیوں نہیں !۔

آپ آفس جانے سے پہلے سامان میں سے شناختی کارڈ یاد سے نکال لیجئے گا۔ کل الیکشن ہے شناختی کارڈ کی ضرورت پڑے گی۔

سویرا نے چائے کا کپ میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔

نہیں! کل تو سنڈے ہے بچوں کے ساتھ کہیں گھومنے چلیں گے۔ میں نے چائے کا چسکیاں  بھرتے ہوئےجلدی جلدی آفس کا بیک بھرا۔

کیا مطلب اور الیکشن کا کیا ہوگا؟

سویرا نے حیرانی سے پوچھا۔

میں کیا کروں گا ووٹ ڈال کر کوئی اس قابل نہیں ہے کہ ان کے ہاتھ میں اپنا ملک دوں۔ خیر کل سونے اور گھومنے کا دن ہے اپنی امی کو بتا دو کل ہم ان کے گھر چلیں گے اس بہانے ابو کی خیریت بھی لے لوں گا میں۔

میں نے کپ واپس سویرا کے ہاتھ میں دیا اور جلدی جلدی جوتے پہن کر آفس کے لیے نکل گیا۔

تمہارے خیال میں ووٹ ڈالنا اہم کیوں نہیں ہے ؟

 کیا تم نے پاکستان کا مستقبل کسی کے ہاتھ میں نہیں دینا “

ارے بھائی کیوں نہیں چاہتا بالکل چاہتا ہوں کہ ہمارا ملک  کسی محفوظ ہاتھوں میں جائے اور خوب ترقی کرے

 مگر کوئی اس قابل کہاں ہے “

“کیوں نہیں ہے؟

اگر تم تمام جماعتوں کا جائزہ لو تو کوئی ایک جماعت ضرور اس قابل ہوگی جو پاکستان کے حق میں بہتر ہوگی۔”

آفس میں شاہ زیب اور سکندر صاحب زیر بحث میں مصروف تھے۔ میں اپنی ٹیبل پہ بیٹھا ان کی باتیں غور سے  سن رہا تھا۔

نہیں بھائی کوئی فائدہ نہیں اور ویسے بھی کون سا ہمارے ووٹ سے ہماری پسند کی جماعت آجائے گی۔

ہونا وہی ہے جو دھاندلی سے ہمیشہ ہوتا ہے۔

“مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ تم کسی ایک جماعت کا انتخاب نہ کرو۔”

سکندر صاحب نے کہا۔

آپ کی نظر میں کون سی جماعت اس قابل ہے۔ لیکن اگر میری نظر سے دیکھیں اگر تویقین کریں ایم کی ایم اور پیپلز پارٹی بظاہرسیاسی بیان بازی مصروف ہے مگر عملا یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اس ماحول میں انسان کیسے پہچانیں-“

شازیب ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے بولا۔

“کیا تمہیں وہ جماعت نہیں دکھ رہی جو عوام کے ہر مسئلے میں ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہتی ہے کراچی کی سڑکیں ہوں یا بجلی اور گیس کے مسائل، پانی کے پائپ لائنوں کا مسائل ہو یا گٹر ابلنے کے مسائل سے لے کر ٹرانزینڈر کا بل ہو یا اسمبلی میں اسلام کے خلاف پر پاس ہونے والے قانون جماعت اسلامی ہر جگہ اپنے بہترین کردار ادا کر رہی ہے۔ عوام کے جذبات کو سمجھتی ہے اور ہمارے مسائل کو حل کرنے کا عزم رکھتی ہے ۔اج سے پہلے میں نے کبھی جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیا مگر مسائل فلسطین کے وقت اس جماعت کی جدو جہد دیکھ کر مو میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کیوں نہ ایک بار اس جماعت کا جائزہ لیا جائے۔

اور شاہ زیب کہ ہم یہ بول کر پیچھے نہیں ہٹ سکتے کہ ہمارا ووٹ ضائع ہوگا یا کوئی اس ووٹ کے قابل نہیں ہے یہ ہمارے وطن وطن عزیز کا معاملہ ہے۔ سب سے بڑھ کر اللہ نے ہمیں زمہ داری بخشی ہے جس کی ہم سب ہی مسلمانوں سے پوچھ ہوگی”۔

سکندر صاحب کی بات بلاشبہ درست تھی۔

زلزلہ آئے تو جماعت اسلامی، سیلاب آئے تو جماعت اسلامی، بیوہ کی مدد کرنی ہو یا بے سہاروں کا سہارا بننا ہو تو جماعت اسلامی، اسکالرشپز دینی ہو تو جماعت اسلامی، ختم نبوت کا تحفظ ہو یا فلسطین میں امداد پہچانی ہو، سود کے خلاف لڑنا ہو یا عوام کے حقوق کا تحفظ ہو تو جماعت اسلامی۔

تو پھر ووٹ دینا ہو تو جماعت اسلامی کیوں نہیں۔؟