قوموں کا عروج و زوال‎

اور جب تم نے کہا “اے موسیٰ: ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کر سکتے، اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار، ساگ ، ترکاری، کھیرا، ککڑی، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کرے۔”

جواب ملا ” اچھا:شہری زندگی اختیار کرو، کسی شہر میں جا رہو، تم نے جن چیزوں کا سوال کیا ہے وہ تمہیں مل جائیں گی:

آگے کی آیات میں بیان ہوتا ہے، ” آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے”

خرم مراد اپنی کتاب “کارکن اور قیادت سے تحریک کے تقاضے ” میں اس آیت کی وضاحت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ سزا محض لہسن پیاز یا دال طلب کرنے پر نہیں دی گئی تھی بلکہ صحرائے سینا میں ان کی دشت نوردی جہاد کے لئے تھی جہاں انہیں من و سلویٰ کھانے کو مل رہا تھا،

ان کا یہ مطالبہ ایک نعمت کا انکار اور دوسرے کی طلب نہیں تھا بلکہ درحقیقت دشت نوردی مشقت و جہاد سے انکار اور کاشت کاری امن سکوں کی زندگی کی خواہش جہاد جیسے عظیم مقصد سے فرار تھا جس کے لئے اللہ رب العزت نےاس قوم کو پیدا کیا تھا اور اس فرار کے نتیجے میں ذلت و مسکنت اور غضب الہیہ کا شکار ہوئے۔

اس واقعہ سےقوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے جو اصول نکالا وہ یہ ہے کہ “جو قومیں اور امتیں جہاد کی زندگی گزارنے اور جدوجہد کرنےکو تیار ہوں گھروں سے نکلنے اور قربانی دینے کو تیار ہوں وہی دنیا میں غالب رہتی ہیں اور جو اس پر راضی ہو جائیں کہ جنگل میں جگالی کرتی رہیں اور گھاس پھوس کھاتی رہیں تو وہ شیر کا تر نوالہ بن جاتی ہیں جو دنیا میں مسلمان قوم کے ساتھ ہوا ۔۔۔”

حقیقت یہی ہے امت مسلمہ کا جو حال آج ہمارے سامنے ہے وہ اس کی زندہ و جاوید مثال ہے جب تک یہ امت جہاد کے راستے پر گامزن رہی غالب رہی فتوحات ان کا مقدر بنیں مورخین نےان کے عروج کا ایک سنہری دور قلم بند کیا اور جہاں جہاد کو سخت کوشی و قربانی کے راستے کو ترک کیا مغلوبیت و ذلت و مسکنت کا شکار ہوئے کہیں اغیار کے لئے تر نوالہ بنے اور کہیں خود ایک دوسرے کے لئے۔۔۔۔

اور پھر رفتہ رفتہ سارا عروج زوال میں اور حاکمیت مغلوبیت میں تبدیل ہوئی اور آج جب بیت المقدس پکارتا ہے ہے تو 80 مسلم ممالک میں سے کوئی ایک بھی اس قابل نہیں کہ اعلان جہاد کر کے ان کی مدد و نصرت کو پہنچ سکے وطنیت کے بت کا پجاری بنا یہ جتھا آج خس و خاشاک اور پانی کے جھاگ کی طرح ہلکا و بے وقعت ہو چکا ہے اور اس حقیقت سے بیگانہ کہ کل کو اس طوفان نے ان کے قصروں و ایوانوں کا رخ کیا تو کہاں پناہ لیں گے کہ اللہ نے تو فرما دیا اور اس کا فرمانا برحق ہے”یہ یہود و نصاریٰ کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے” یا ڈریں اس وقت سے جب کسی مظلوم کی آہ یا فریاد غضب خداوندی کو للکار دے اور پھر اس حال کو پہنچیں جو قوم موسیٰ کا ہوا۔