برباد گلستاں کرنے کو بس ! ۔

ستتر سال ہوگئے جی ہاں ستترسال اہمیت رکھتے ہیں ہمیں آزاد ہوئے سالوں بیت گئے کتنی قربانیاں دی ہنستے بستے گھر چھوڑے کتنی ماؤں نے اپنے لخت جگر اس سرزمین کے واسطے پیش کئے اور کتنی عزتیں تار تار ہوئی۔

صرف ایک آزاد ملک کی خاطر جہاں انگریزوں کی غلامی نہ ہو جہاں حرام حلال کی تمیز ہو کرسیاں بکتی نہ ہوں جہاں اذان پر پابندی نہ ہو بس ایک آزاد ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہو اور یہ خواب پورا ہوا جس کی ہم تعبیر ہیں۔

پر افسوس ہم پکے مسلمان تو بن گئے مگر اچھے انسان نہیں بن سکے آج بھی ہم قید میں ہیں آج بھی صرف بانیِ پاکستان سے ہی کام بنتے اور بگڑتے ہیں آج بھی انگریزوں کی ہی چلتی ہے آج بھی زات پات اونچ نیچ کے پھندے گلوں میں پڑے ہیں آج بھی چمچماتی گاڑیوں کے درمیاں بھوک اور افلاس نظر آتا ہے بس ہم اور آپ اپنی ہی دنیامیں مگن یہ سب دیکھتے ہی نہیں۔

جس طرح کل سڑک پر ریڑھی گھسیٹتا ایک نوجوان تھال میں رکھے رول سموسے بیچ رہا تھا دیکھنے میں تو پڑھا لکھا تھا پوچھنے پر پتہ چلا بڑی مشکل سے میٹرک کیا ہے کیوں کہ تعلیم بہت مہنگی ہے مکان کرائے کا ہے پہلے بڑی دکان تھی مین شاہراہ پر مگر کچھ بھتہ خوروں کی وجہ سے بند کرنی پڑی اور چند ماہ میں گزر بسر ٹھیلے سے شروع ہوا ایسی بات نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں سرکاری نوکریاں نہیں ہیں۔

نوکریاں تو ہیں مگر غریب کے پاس سفارش یا رشوت نہیں ہے نوجوان نے ٹھنڈی آہ بھری! ایک جگہ گیا تھا الیکٹریشن کی حثیت سے کہ شاید نوکری مل جائے مگر انٹرویو کے بعد ٹیبل کے نیچے سے بھیک مانگتا ہاتھ دیکھائی دینے لگا پورے دو لاکھ ورنہ ہماری پارٹی کا حصہ بن جاؤ سائیں نوکری پکی ہوجائے گی۔

آفس سے باہر نکلے تو گیٹ پر بیٹھے کتے کو دس روپے والا بسکٹ ڈال دیا مگر کتے نے تو سونگ کر منہ پھیر لیا پتہ چلا کتا تو مہنگے بسکٹ کھاتا ہے وہ بھی باہر کے واہ جی “سائیں تو سائیں سائیں کا کتا بھی سائیں” ابھی دو لاکھ کا درد مٹا نہیں تھا تو اگلے اسٹاپ پر ہی ہمیں دو موٹرسائيکل سوار نے لوٹ لیا مکان کا کرایہ اور ایک ٹوٹا پھوٹا موبائل لے کر وہ تو فرار ہوگئے مگر چند قدم پر ہی کھڑی محافظ گاڑی اور اہلکار نظر آگئے قریب جا کر انہیں اپنی روداد سنائی تو صاحب نے بتایا روڈ کے اس پار کا علاقہ ان کا نہیں ہے۔ اچھا جی کل تو اسی روڈ پر میری ریڑھی سے خوب سموسے کھائے تھے۔

مگر ایک بات کی خوشی ہے کہ ہم ایک آزاد ملک میں ہیں تب ہی تو ہم گائے آزادی سےقربان کرتے ہیں مگر کھالیں ہمارے بھائی لےجاتے ہیں یہی نہیں سرکاری ہسپتال کی لمبی قطار میں کھڑے ہم آزاد شہری سفارشیوں کو بغیر انتظار کے آتا جاتا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس لمبی گفتگو کے آخر میں جب میں نےکہا کسی سرکاری اسکول میں ریڑھی لگا لو اچھی انکم ہوجائے گی۔

مطلب روزتین سو سے چار سو میڈم کی جیب میں ڈالو۔

یہاں تو “ہر شاخ پہ اُل٘و بیٹھا ہے” آپ نہیں سمجھو گے۔

بات تو ٹھیک ہے ویسے ہر جگہ جب رشوت سفارش دھوکہ لوٹ مار مچی ہو اور ملک کے ہر ایک شعبے میں اُل٘و بیٹھے ہوں تو اس ملک کا انجام کیا ہوگا؟ آزادی سےپہلے ہمیں ایک اُل٘و کا خوف تھا اب تو.

برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی اُل٘و کافی تھا

ہر شاخ پہ اُل٘و بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا۔