ایک بار پھر موقع ہے

ہمارے ملک پاکستان کو وجود میں آئے ستتر برس ہونے کو ہیں۔ ستتر برس کے اس عرصے میں یہ سرزمین اور یہ قوم کئی تبدیلیوں، جنگوں اور واقعات کی شاہد بنی۔ کئی حکومتیں بدلیں، چار مرتبہ مارشل لاء بھی لگا۔ تاہم اس سب کے باوجود ملک اسی مشکل دور سے گزرتا رہا جس سے وہ آزادی کے وقت گزر رہا تھا اور اب بھی گزر رہا ہے۔

لیکن جب بھی حکومت بدلتی ہے تو پورا نظام بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اوپر سے نیچے تک ہر عہدے پر نئے لوگ آتے ہیں کیونکہ سابقہ حکومت اور ان کے بے ایمان افسران کے کرتوت سامنے آتے ہیں۔ نئی آنے والی حکومت پہلے سال پچھلی حکومت کا پھیلاوا سمیٹتی ہے اور اگلے چار سال اگلے الیکشن کی تیاری کرتی ہے۔

یوں ملک مشکل دور سے گزرتا ہی چلا جا رہا ہے۔ تاریخ کے اسٹیج پر کردار بدلتے رہتے ہیں لیکن کہانی وہی رہتی ہے۔

اگرچہ اکثر ممالک کی تباہی کے لیے ایک ہی نااہل حکمران کافی ثابت ہوتا ہے۔ لیکن سلام ہے پاکستانی قوم کی استقامت کو جو تسلسل کے ساتھ ایک ہی قسم کے حکمرانوں کا انتخاب کرتی ہے اور یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کرتی ہے کون ملک کو کتنا نقصان پہنچا سکتا ہے۔

کئی سالوں سے یہی سلسلہ چلنے کی بدولت اب عوام اس بددیانتی کی عادی ہو چکی ہے۔ ان کے خیال میں اگر حکومت ان کا پیسہ کھا رہی ہے تو وہ کیوں حکومت کا پیسہ نہ کھائیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کو ملنے والے وسائل حکومت کے نہیں بلکہ ملک کے ہیں۔ جس کو جتنا اختیار ملتا ہے وہ اتنا ذاتی مفاد حاصل کرتا ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اپنے اختیار سے اس بےایمانی کے سلسلے کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ آخر ایک سے کیا ہوگا؟

یہ حلال اور حرام کا فرق کھو دینا اپنے ساتھ مزید برائیاں لاتا ہے۔ انسان کی حیا چلی جاتی ہے، دل عبادت سے اچاٹ ہو جاتا ہے، سچ سن کر سنانے والے پر غصہ آتا ہے۔ دیکھا جائے تو آج یہی برائیاں ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں۔

اب پاکستان کی زبوں حالی کی وجہ صرف ہمارے حکمران نہیں ہماری پوری قوم ہے۔ معمولی سے معمولی اختیار کے حامل افراد بھی ان برائیوں کے منبع بن چکے ہیں۔

اس طرز عمل کے بعد بھی اگر ہماری قوم حیات ہے تو یہ بڑی بات ہے۔ اللہ کی اس قدر نافرمانیوں کے باوجود اگر ہم پر عذاب نہیں بھیجا گیا ہے تو یہ صرف ہماری مہلت ہے۔ اگر ہم نے جلد خود کو مسلمان قوم میں نہ ڈھالا، اپنے حکمرانوں کا انتخاب اسلام کی کسوٹی پہ پرکھ کر نہ کیا، تو ہم بہت بڑی تباہی کا شکار ہوں گے۔

سابقہ امتوں پر کسی ایک گناہ کی کثرت کے باعث عذاب بھیجا گیا لیکن ہم میں تو تمام گناہ ہی یکجا ہو چکے ہیں۔ لہذا یہ ہمارے لیے مقام فکر ہے کہ ہم گناہوں کی کس درجے پہ کھڑے ہیں اور ہمارے لیے کتنی خوفناک تباہی منتظر ہو سکتی ہے۔

تاہم اب ایک بار پھر ہمیں موقع مل رہا ہے کہ ہم پاکستان کے ایوانوں پر مدتوں سے قابض الوؤں کو ہٹائیں اور ایسے حکمرانوں کا انتخاب کریں جو کرپشن سے پاک ہوں اور بے داغ ماضی کے حامل ہوں۔ خود کو بدلیں تاکہ قوم بدلے تو ملک بدلے۔