وہ ہار کر بھی جیت جاتے ہیں

پاکستان کے چاروں صوبوں کے سنگم پر چار گاؤں آباد تھے۔

پہلے گاؤں کا نام علی نگر  تھا یہاں شیعہ آبادی کی اکثریت تھی۔

دوسرے گاؤں کا نام خیر محمد گوٹھ تھا جہاں اہل سنت بریلوی آباد تھے۔

تیسرا گاؤں توحید پورہ تھا جہاں مسلک اہل حدیث اور دیوبند آباد تھے۔

چوتھا گاؤں شیر گڑھ تھا جہاں عیسائی اہل کتاب آباد تھے۔

انتخابات قریب تھے ، گہما گہمی شروع تھی،

اسلامی جماعت کے لوگ پہلے گاؤں علی نگر پہنچے اور ان کو اپنی دعوت کے لئے کنوینس کیا،

ان کو یاد دلایا کہ،، امام حسین نے بھی غلط نظام کی بیعت نہ کی اور مقصد کے لئے جاں نچھاور کی، گاؤں کے بزرگوں نے ان کی تمام باتوں سے اتفاق کیا لیکن اسلامی پارٹی کو ووٹ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے سیکولر پارٹی کے امیدوار کو ہی ووٹ دیں گے۔

اسلامی پارٹی والے دوسرے گاؤں خیر محمد گوٹھ پہنچے انہوں نے گاوں میں جلسہ کیا، لوگوں کو آگاہ کیا ، کہ نبی مہرباں سے محبت کا تقاضہ ہے کہ امانت اہل لوگوں کے سپرد کی جائے۔

 وہاں موجود بزرگوں اور اہل علاقہ نے ان کو بتایا کہ وہ اسلامی پارٹی کو درست جانتے ہیں لیکن ان کا ووٹ دوسری سیکولر پارٹی کے امیدوار جو ان کی زبان بولنے والے ہیں اوران کے جدی پشتی پیر بھی ہیں کا ہے ۔

اسلامی پارٹی والے تیسرے گاؤں  توحید پورہ پہنچے، وہ بہت پر امید تھے کہ یہاں کے لوگ ضرور ان کی سنیں گے ، توحید پورہ کے لوگوں نے ان کا بھرپور خیر مقدم کیا، ان کی تمام باتوں سے اتفاق کیا، لیکن ووٹ دینے سے انکار کیا اور بتایا کہ وہ ووٹ سیکولر پارٹی کے امیدوار کو ہی دیں گے حالانکہ وہ ان کی زبان بولنے والے نہیں اور ہم مسلک بھی نہیں ، لیکن توحید پورہ کے لوگوں کو ان سے پکی امید ہے کہ وہ وہاں ضرور ترقیاتی کام کرائیں گے۔

اسلامی پارٹی والے چوتھے گاؤں شیر گڑھ  پہنچے وہاں انہوں نے لوگوں کو جمع کیا اور بتایا کہ دین اسلام ہی تمام اقلیتوں کے حقوق ادا کرنے کا ضامن ہے، تاریخ شاہد ہے کہ اسلام پر کاربند حکومتوں میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل رہے اور  با عزت زندگیاں گزارنے کے مواقع حاصل ہوئے ۔

اگر اقلیتی برادری سیکولر امیدواروں کو ووٹ دے گی تو چونکہ وہ اپنے دین اسلام پر کاربند نہیں رہتے تو وہ اقلیتی برادری سے بھی انصاف نہیں کریں گے۔

اقلیتی برادری کے لوگوں نے ان کی باتوں سے اتفاق کیا لیکن اپنی مجبوری ظاہر کی کہ وہ دین اسلام پر کاربند ہونے والی پارٹی کی نسبت ملک کی بڑی سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

کیونکہ اسلام پسند پارٹی پر خود آپ کے ہم مذہب ہی اعتماد نہیں کرتے ، اور ملک کی اکثریتی مسلم آبادی خود ہی اسلامی اصولوں پر مرتب حکومت کی مخالف ہے تو وہ کیوں ساتھ دیں؟

انتخابات وقت پر ہوئے پورے ملک کی طرح اسلامی پارٹی کو ان چاروں گاوں سے بھی بہت کم ووٹ ملے ، اور اسلامی پارٹی شکست سے ہمکنار ہوئی۔

یہاں سے قومی اسمبلی کی سیٹ ایک سیکولر پارٹی کے امیدوار اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ دوسری سیکولر پارٹی نے جیت لی۔۔

کچھ عرصہ بعد،،،،

علاقے میں بہت بارشیں ہوئیں جن سے تباہی مچ گئی،

کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، مال مویشی مرنے لگے، تا حد نگاہ پانی ہی پانی نظر آرہا تھا،

لوگ اپنی چھتوں پر بیٹھے امداد کے لئے راہ تک رہے تھے،

لیکن حکومت وقت کے بزرجمہر اپنے ٹھنڈے کمروں کی مست زندگیاں گزارنے میں مصروف تھے۔

علاقے سے قومی اسمبلی کا رکن اپنی زمینوں کو بچانے کے لئے پانی کا رخ چاروں گاوں کی جانب کر کے دارالخلافہ میں اسمبلی لاج میں عیش کر رہا تھا،

صوبائی اسمبلی کا رکن اپنی اونچی حویلی میں خوش و خرم موسم کے مزے لے رہا تھا۔

ایسے میں گاؤں والوں کی نگاہ اسلامی پارٹی کے لوگوں پر پڑی جو کشتی میں امدادی سامان کے ساتھ دور دراز سے اپنے گھروں کو چھوڑ چھاڑ کر پہنچے تھے۔

اسلامی پارٹی کے لوگ اپنے مربوط سسٹم کے تحت جلد ہی علاقے سے پانی کی نکاسی اور خوراک کی فراہمی میں کامیاب ہوگئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلامی پارٹی والوں نے  علاقے میں ٹوٹے پھوٹے گھروں کی ازسر نو تعمیر کا بیڑہ اٹھایا،

جلد ہی گاوں کے بیشتر گھروں کی تعمیر و مرمت کا کام مکمل ہوا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھیتی باڑی کے علاقے میں غریب لوگوں کی جمع ہونجی پانی کی نذد ہونے کی وجہ سے یہاں کے کسانوں کے پاس اگلی فصل بونے کو بیج اور وسائل نہ تھے گاؤں والے قومی اسمبلی اور صو بائی اسمبلی کے ارکان کے پاس پہنچے انہوں نے حکومتی بجٹ میں رقم نہ ہونے کی بنا کسی قسم کی مدد سے معزوری ظاہر کی اور بنک سے رقم لینے کا مشورہ دیا ، لیکن بینک کا سود اتنا زیادہ تھا کہ کسان کے لئے فصل کے ذریعے کچھ کمانا نا ممکن تھا ۔

ایسے میں پھر اسلامی پارٹی والے آئے اور انہوں نے کسانوں کو کھاد اور بیج مفت تقسیم کئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانچ برس گزر گئے۔۔۔۔

اگلے انتخابات سر پر پہنچ گئے۔۔

انتخابی گہما گہمی پھر شروع ہو گئی۔

سیکولر پارٹیاں ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے بڑے بڑے جلسے کرتی رہیں۔

اسلامی پارٹی والے پھر اپنا منشور لیکر علی نگر، خیر محمد گوٹھ ، توحید پورہ اور شیر گڑھ پہنچے ،

وہاں لوگوں کو وہی بھولا ہوا سبق یاد کرانے کی کوشش کی ،

لوگوں کو تاریخ ، دلائل اور عقل کی روشنی دکھائی گئی۔

لوگوں نے سب باتوں سے اتفاق کیا۔

لیکن۔۔

اگلے انتخابات کا نتیجہ پچھلے انتخابات سے مختلف نہ تھا۔

اسلامی پارٹی کو ایک بار پھر بہت کم ووٹ ملے۔۔۔

لوگوں نے کہا اسلامی پارٹی پھر ہار گئی۔۔۔۔۔

 شعور والوں نے کہا اسلامی پارٹی پھر جیت گئی.

 قوم پھر ہار گئی ۔۔