مہذب معاشرے اور انسانیت کی تذلیل

فلسطین سے سماجی ابلاغ پر لمحہ بہ لمحہ نمودار ہونے والی تصاویر، ویڈیوز اور دل دوز داستانیں عالمی طاقتوں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دوسری طرف فلسطینیوں کے مطابق انہیں کسی امداد کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں کامل یقین ہے کہ وہ اللہ کی رضا کے حصول کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ بخوشی اس وقت تک دیتے رہینگے جب تک فلسطینی ختم نہیں ہوجاتے یا اسرائیل کے ناپاک وجود کو ختم نہیں کردیتے۔ ان کاماننا ہے جوکہ ایسا ہی ہے کہ وہ اللہ کے خاص بندوں یعنی انبیاء کرام کی سرزمین کی حفاظت پر مامور ہیں اور قبلہ اول کے وارث ہیں۔ وہ معاشرتی اور مذہبی دونو ں صورتوں میں دین اسلام کی سربلندی کیلئے تن تنہا میدان کار زار میں برِسرپیکار ہیں۔ اب تک جو فلسطینی، فلسطین کی سرزمین پر زندہ ہیں، وہ کتنی ہی زبوں حالی کا شکار ہیں چاہے بچے، عورتیں، بوڑھے یا جوان لیکن مسکرا رہے ہیں، ان کی مسکراہٹ ہمارے کلیجوں پر کسی نشتر سے کم نہیں ہے کیونکہ وہ کس بلا کی تکلیف کے باوجود مسکرا رہے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انکے لئے کسی قسم کی کوئی عملی آواز تک نہیں اٹھائی جاسکتی۔

یہ بھی طے ہے کہ ہم قطعی اس کرب کو محسوس نہیں کرسکتے ہیں جو فلسطین کے پاشندوں کیلئے معمول بنا ہوا ہے۔ ہم یہاں فلسطینیوں کو بہن بھائی بھی نہیں لکھ رہے کیونکہ ہم یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ ہمارے بہن بھائی نہیں ہیں البتہ وہ ساری امت کو اپنا بہن بھائی سمجھ کر سب کے دین کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ بے دریغ دے رہے ہیں ( جیسے فلسطین کی سرزمین خوشبوءوں سے معطر ہے اور وہاں ہر طرف خوشبوؤں کا بسیرا ہے، شہدا کی روحیں پرواز کرتی اپنے زندہ اہل خانہ کی دل جوئی کرتی رہتی ہیں ) من کی آنکھوں سے دیکھیں تو کیا خوبصورت مناظر ہیں۔ فلسطینیوں کا جذبہ ایمانی دیکھ کر یقین آگیا کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ پھر کسی سے نہیں ڈرتا۔ بہت ساری ویڈیوز آپکی نظروں سے گزر رہی ہونگی جن میں ملبے کے ڈھیر تلے دبے ہوئے معصوم چھوٹے چھوٹے بچوں کے گرد آلود چہرے جو دیکھنے والوں کے دلوں پر چھریاں چلا رہے ہیں، کچھ ایسی بھی ویڈیوز نظر سے گزریں کے جن میں ملبے تلے دبے بچے بچیاں جہاں تک دیکھائی دے رہے ہیں وہاں تک زندہ ہیں اورجو کچھ ملبے کے نیچے ہے اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکتا آیا کہ وہ کس حد تک سلامت ہیں یا پھر بلکل ختم ہوچکے ہیں۔ جو ملبے میں دب کر بچ گئے ہونگے وہ بعد میں شھادت کے رتبے پر فائز ہوگئے ہونگے کیونکہ وہاں ملبہ ہٹانے کے کوئی آثار بھی نہیں دیکھائی دے رہے ہیں۔ ہماری شرمندگی اور افسردگی اور بھی بڑھ جاتی ہے جب سوچتے ہیں کہ یہ شھید ہمارے خلاف کیا شھادت دینگے۔

اسرائیل اپنی کارگزاری سے انسانیت کی بدترین تاریخ رقم کر رہا ہے، اگر دنیا کی بے حسی اپنے عروج پر نہیں پہنچ چکی تو انہیں پتہ چلتا کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ معمولی بات تھی کیونکہ جو کچھ ہوا وہ ایک دفعہ میں ہو کر ختم ہوگیا لیکن یہاں تو کب کہاں کیسے کیا ہوگا کچھ پتہ نہیں چل رہا بس موت پورے فلسطین پر رقص کر رہی ہے۔ یہاں یہ لکھنا بھی غیر ضروری ہے کہ بچیوں کی آبروریزی ہورہی ہے کیونکہ جو انسانیت کی آبروریزی کر رہا ہے اسکے لئے یہ سب تو کوئی بڑی یا بری بات نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ بھی ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اسرائیلی فوجی کس طرح سے ملبے کے ڈھیر بنے مکانوں سے سامان لوٹ رہے ہیں اور جشن منا رہے ہیں۔ ہماری بے حسی کو عروج پر پہنچا کر اسرائیل نے اپنے حریفوں کو ملا کر فلسطین کو تہس نہس کرنے کا عملی مظاہرہ کیا جارہا ہے، اس مقولے کو بھی عملی جامہ پہنادیا ہے کہ اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی ہے۔ فلسطینی اپنی زندگی کی بقاء نہیں چاہتے وہ اپنی متبرک زمین چاہتے ہیں انکا کہنا ہے کہ ہمیں کہیں نہیں جانا اگر ہم ہیں تو اپنی سرزمین پر ہی رہینگے ورنہ اس زمین میں دفن ہوجائینگے۔ فلسطینی جو کسی خاص قسم کے اسلحے سے لیس نہیں ہیں محدودترین وسائل اور محدود امداد بھی انہیں پیچھے جانے پر امادہ نہیں کرپارہی ہے۔ فلسطین میں عملی طور پر تاریخ کی سب سے بڑی اور منظم تخریب کاری کا سلسلہ جاری ہے، انسانی زندگیوں کا اتنی بے دردی سے خاتمہ جدید دنیا کے منہ پر کسی بدنما داغ سے کہیں زیادہ ہے۔ یوں تو افغانستان کی تباہی کا مناظر ابھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوئے اور نا ہی عراق، لیبیا اور شام کا تباہ شدہ ملبہ سمیٹا گیا ہے لیکن اس سب کو جیسے بھلانے کیلئے فلسطین کی تباہی کی جارہی ہے۔

معاشرے کتنے مہذب ہی کیوں نا ہوگئے ہوں لیکن دیکھائی ایسا ہی دے رہا ہے کہ عوامی رائے کا احترام شائد دنیا کے کسی معاشرے میں نہیں کیا جارہا اور اگر کہیں کیا بھی جاتا ہے تو صرف اتنا کہ لوگوں کے ہجوم کو مشتعل نہیں کیا جاتا اور انہیں منظم طریقے سے اپنا احتجاج کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ لیکن سرکاری سطح پر وہی ہوتا ہے جو کسی بھی ملک کی واضح کردہ خارجہ حکمت عملی نے طے کیا ہوا ہوتا ہے ۔ یہاں ایک اور بات بھی سمجھ آتی ہے کہ مہذب کہلانے کیلئے اور ترقی کے حصول کیلئے آپ کو بہت حد تک بے حس ہونا پڑتا ہے یعنی اگر آپ کی راہ میں کوئی رکاوٹ جس کا تعلق جذباتیت سے ہو، آپ کو اسے نظر انداز کرنا پڑے گا اور آگے بڑھنا پڑے گاتب ہی ترقی کا حصول ممکن ہوگا اور اس ترقی کیساتھ آپکو مہذب ہونے کی سند بھی مل جائے گی۔ ایسا ہی کچھ دنیا کر رہی ہے ۔

آج قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سب کے سب ہی طاقتور کے دباؤ تلے دبے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے حلف کی خلاف ورزی اعلانیہ کرتے دیکھے جارہے ہیں۔ اب یہ کسی ایک ملک کا مسلہ نہیں رہا تقریباً دنیا میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ ساری اقدار و قوانین کتابوں میں بند کرکے کتب خانوں کو تالے لگا دئے گئے ہیں، آج کتابیں بھی وہ لکھی جا رہی ہیں جن میں ایسے حالات میں جینے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔ پہلے کشمیر پر بھارت نے قدغن لگائی اور ساری دنیا زبانی جمع خرچ کر کے خاموش ہوکر بیٹھ گئی اور اب جو کہ کشمیر کے مقابلے میں بہت مختلف ہے لیکن تختہ مشق مسلمان ہی ہیں۔ معلوم نہیں ہم انتظار کر رہے ہیں یا پھر کوئی اور کسی کا انتظار کر رہا ہے کہ جب وہ آجائے تو ہماری جان چھوٹ جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش میرے اللہ نے فرعون کے گھر میں کروائی تھی جب کہ لڑکے کی پیدائش پر اسے قتل کردینے کا حکم تھا۔ اب معجزے کا انتظار ہی کرسکتے ہیں کیونکہ جنہوں نے کچھ کرنا تھا وہ، وہ کر بیٹھے ہیں جو اب سے پہلے کبھی سوچا بھی نہیں گیا تھا۔ ہم نے پاکستان کی عوام کیلئے قلم اٹھانا تقیریباً چھوڑ دیا ہے لیکن فلسطین کی غیور عوام جو کسی سہارے کے بغیر اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے ٹکرائی ہوئی ہے مجبور کرتی ہے کہ اپنے احساسات کو لکھا جائے، اپنی تکلیف سے قارئین کو آگاہ کیا جائے کیونکہ قارئین کے محسوسات بھی کچھ اس سے ملتے جلتے ہوئے ہی ہوتے ہیں۔ اللہ سے دعا تو کرسکتے ہیں کہ امت کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دیں۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔