بدل سکتی ہیں تقدیریں

ایک دن بڑا بیٹا گھر آیا تو اس کا موڈ کافی خراب تھا، وجہ پوچھی تو کہنے لگا “ہماری قوم کا کچھ نہیں ہو سکتا، ہمارے ملک کی تقدیر کبھی نہیں بدل سکتی” ارے ایسا کیا ہو گیا اتنی مایوسی کیوں؟ ہم نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا تو کہنے لگا آپ کھانا لگائیں پھر میں فریش ہو کر آپ کو تفصیل بتاتا ہوں۔ اس کی عادت ہے کہ کھانے کے دوران اپنی تمام روداد سناتا ہے لہٰذا جیسے ہی اس کے سامنے بیٹھی تو اس نے کہنا شروع کیا ماما آپ تو “ان پڑھ” لوگوں کو ہی روتی رہتی ہیں کہ ان کے پاس شعور نہیں ہے انہیں وڈیرے اور جاگیردار کبھی پیسے دے کر کبھی بریانی کھلا کر اور کبھی برادری کے نام پر جدھر چاہیں اور جیسے چاہیں استعمال کرتے ہیں اور خاص کر الیکشن کے زمانے میں تو پورے کا پورا گاؤں do as directed کے اصول پر ووٹ کاسٹ کرتا ہے لیکن آج اپنے کلاس فیلوز کے خیالات سن کر افسوس کے ساتھ ساتھ غصہ بھی آیا جو کہ مذہب کو سیاست سے الگ سمجھتے ہیں۔ میں تو حیران تھا کہ مستقبل کے انجینیئرز،ڈاکٹرز اور دیگر شعبوں کے پڑھے لکھے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مذہب انسان کا ذاتی مسئلہ ہے اسے سیاست سے الگ رہنا چاہیےجبکہ میرا یہ ماننا ہے کہ

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

ہم نے ستائشی نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو بیٹا! مسلمانوں نے جب تک سیاست اور مذہب کو جدا نہیں کیا تھا انہوں نے پوری دنیا پر حکمرانی کی تھی۔ قرونِ اولیٰ کے مسلم حکمرانوں کو دیکھو وہ صرف نام کے مسلمان نہیں تھے بلکہ وہ اسلام کی عملی تفسیر پیش کیا کرتے تھے۔ ان کے قول و فعل میں تضادات نہیں ہوتے تھے۔ راتوں کو بھیس بدل کر اپنی رعایا کی خبرگیری کیا کرتے تھے۔ پنج وقتہ نمازی اور تہجد گزار بھی ہوتے تھے۔ سپہ سالاری بھی کرتے تھے۔ ان کا عدل وانصاف کا ترازو امیر و غریب، دوست ودشمن سب کے لیے یکساں ہوتا تھا۔ نیک اور صالح، امانت دار اور دیانت دار ہوا کرتے تھے۔ مگر جیسے ہی مسلمانوں نے سیاست اور دین کو الگ کیا تو ناکامی اور ذلت ان کا مقدر بنی مذہب کو انہوں نے ذاتی مسئلہ قرار دے کر مسجدوں تک محدود کر دیا اور خود کو سیاست کے میدان کا کھلاڑی بنانے کے لیے ہر جائز و ناجائز ایک کرنے لگے تو اس کا انجام یہی نکلا کہ دنیا میں ہر طرف ذلیل و خوار ہونے لگے۔

اس دوران خاموشی سے اس نے ہماری بات سنی اور کھانا ختم کرتے ہوئے کہنے لگا ماما آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں میں نے بھی اپنے دوستوں سے یہی کہا تھا کہ اس بار الیکشن میں ہم ایسے لوگوں کو ووٹ دے کر حق حکمرانی دیں گے جو امانت دار اور دیانت دار ہوں، صادق وامین ہوں، جن کے کردار بے داغ ہوں، جن کے اندر جوابدہی کا احساس موجود ہو اور ایسے لوگ تو صرف جماعت اسلامی میں ہی نظر آتے ہیں۔ کچھ دوستوں نے تو میری تائید کی لیکن کچھ نے مخالفت شروع کر دی اسی وجہ سے میں اس ملک کے مستقبل سے مایوس ہو رہا تھا۔ اب اپنے بیٹے کی پریشانی اچھی طرح ہماری سمجھ میں آ چکی تھی لہٰذا اس کو سمجھاتے ہوئے کہا مایوسی کفر ہے بیٹا، تم یہ بھی تو دیکھو کہ کچھ دوست تمہارے ہم خیال بھی تو ہیں بیشک تعداد میں تھوڑے ہی صحیح مگر ان میں شعور بیدار تو ہو رہا ہے اور جس ملک کے نوجوانوں میں شعور بیدار ہو جائے تو پھر اسکی تقدیر بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ وہ دن دور نہیں جب اس ملک کی باگ ڈور نیک، ایمان دار، اور صالح حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہوگی جو اس ملک سے وفادار ہوں گے اور اس کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کریں گے۔ ان شاءاللہ

ویسے بھی لوگوں کا ذہن بدلنا آسان کام نہیں ہے لیکن جدوجہد جاری رہے تو پانی بھی پتھر میں سوراخ کر دیتا ہے، لہٰذا تم بھی پریشان نہ ہو بلکہ اپنے حصے کی شمع روشن کر کے دوسروں کے لئے مشعل راہ بنو۔ اقبال نے کہا تھا نا !

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ