سال کا آخری سورج

میں سال کی آخری شام اُفق پہ پھیلے نارنجی اور گلابی ڈورے بادلوں کی اوٹ سے نکلتے دیکھنے میں محو تھی کہ مجھے اچانک یوں محسوس ہوا کہ زرد گولا آج بہت ہی اداس ہے بلکہ یوں لگا کہ موٹے موٹے آنسو گرا رہا ہے- خیر ویسے تو یہ محض دنیا والوں کے بنائے گھڑیال اور جنتریاں ہیں جنہوں نے اسے ماہ و سال میں تقسیم کر رکھا ہے ورنہ اس کا اصل کام تو ہر صبح نئی اُمیدیں اپنی جھولی میں لئے طلوع ہونا اور ہر شام اداسیوں کے سائے بکھیرتے اندھیرے کی چادرپھیلاتے ہوئے غروب ہو جانا ہے- لیکن پھر بھی کچھ تو ہے کہ ۳۱ دسمبر کچھ زیادہ ہی مضمحل اور مایوس ہے- اداسی مجھے اپنے رگ وپےمیں اترتی ہوئی باقائدہ محسوس ہونے لگی اور پھر شائد میرے کان بھی بجنے لگے یا شائد وہ اپنی سولر لہروں کے ذریعے مجھ سے محوکلام ہو گیا- وہ مجھے ریڈیائی لہریں بھیج رہا تھا اور میرا دل، دماغ، بلکہ میرا رُواں رُواں اس واضح پیغام کو وصول کر رہا تھا- ہم دونوں کنکٹڈ ہو چکے تھے-

وہ کہہ رہا تھا-

بوڑھا ہو گیا ہوں تھک چکا ہوں- لیکن اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے نہیں تھکا- بلکہ اس بات سے تھک گیا ہوں کہ روزانہ زرہ زرہ کو زندگی کی توانائیاں دینے والے کے سامنے جب زندگی سے بھرپور، جاندار اجسام کو آن کی آن میں موت کی آغوش میں دھکیل دیتے ہیں، جو صبح سے شام تک بھاگتے دوڑتے تھے، رات میں مٹی میں دبا دئیے جاتے ہیں تو میری ہمت ختم ہونے لگتی ہے- میں کس زندگی کی نوید بن کے آؤں۔؟ کس حوصلے سے شیطانی وجود کے ہاتھوں ہنستے ہوئے کھلکھلاتے مناظر کو راکھ کا ڈھیر بنتے دیکھوں۔؟ کس امید پہ واپس لوٹوں؟ کس لئے واپس آؤں؟ کیا اس لئے آؤں کہ پھر ظلم و بربریت کا خاموش تماشہ دیکھوں گا ؟

یہ کب تک چلے گا؟

آخر کب تک؟

میں نے سر جھکا کے سوچا “ آج رات 12 بجے نیوزی لینڈ سے شروع کرکے اگلے بارہ گھنٹے تک پورے کرہ ارض پہ خوشیاں منائی جائیں گی۔ ہر کچھ گھنٹوں بعد رات کی تاریکی رنگ برنگ روشنیوں سے جگمگائے گی- کاش کہ تم ان مناظر کو دیکھ سکتے- ان سے تمہاری اداسی کم ہو جاتی۔ یہ منظر بڑا خوبصورت لگتا ہے“

ہونہہ۔۔۔۔ خوشیاں— کس بات کی خوشیاں؟ کل جب آؤں تو مجھے بتانا کہ رات کس چیز کا جشن منایا تم انسانوں نے ؟

کون سی انسانیت کا جشن منایا؟

اور یہ بھی بتانا کہ نئے سال میں داخل ہوکے کیا کارنامہ انجام دیا ؟

کیا اس سال غزہ کے ننھے بچوں کو بڑا ہو جانے کا حق دے دو گے ؟

یا پیٹ میں موجود جنین کو سلامتی سے دنیا میں آنے کا حق دے دو گے ؟

کیا دنیا کے درندوں کو اُجڑی ہوئی گودوں والی ماؤں کے آنسو نظر آنے لگیں گے؟

یہ نہ سمجھنا کہ میں نا تجربہ کار ہوں، اناڑی ہوں یا کمزور دل ہوں- بڑی بڑی عالمی جنگوں کا چشم دید گواہ ہوں- میں نے ان گنت بستیاں آجڑتی دیکھی ہیں، بستیوں پہ بستیاں بستے دیکھی ہیں- لیکن میری گستاخی معاف کرنا کہ اس مستقل ڈھٹائی کے ساتھ سارے کرہ ارض کے انسانوں کی آوازوں کو یوں بے وقعت ہوتے اور روندتے ہوئے اسی سال دیکھا ہے- تم لوگوں نے ڈھٹائی کا ایک تاریخی ریکارڈ قائم کیا ہے!

اس بار تو لگ رہا ہے کہ اسی کا جشن منا رہے ہو-

ہاں تم جشن منا رہے ہو۔ مگر نہ جانے کیوں ؟

حالانکہ تمہاری نسل انسانی پہ تو جشن منانا سجتا ہی نہیں ہے-

تمہارے مرد اس سال اپنی مردانگی کا جنازہ نکال چکے ہیں – جس مرد کی مردانگی اسے نسل کشی کرنے والے ظالموں کا ہاتھ پکڑنے کے لئے آمادہ نہ کر سکے وہ مردانگی مر ہی تو چکی ہے – اور جس عورت کی ممتا اپنے ہی بچوں کی لاشوں پہ تڑپتی نہ ہو اسے میں کس منہ سے عورت کہوں ؟ تو پھر میں اسے انسانیت کی موت کا سال کیوں نہ قرار دوں؟

تم ہی بتاؤ اس پہ جشن بنتا ہے ؟ یا ماتم ؟

لیکن خیر میرا کیا ہے میں تو کل پھر آؤنگا- ڈیوٹی جو ٹھہری- زندگی دینے، روشنی دینے، امید دینے-

اگر تم چاہو تو اس نئے سال کا ایک ریزولوشن تم بھی بنالو-

“کیا” میرے دل نے گھٹی گھٹی سی کراہ نکالی-

یہی کہ انسان اور انسانیت کو شیطنیت کے چنگل سے باہر نکالنا ہے- غلامی بہت ہوگئی، ظلم بہت ہوگیا، اب آزاد ہونا ہے۔ غزہ کی چھوٹی سی پٹی کے لٹے پٹے انسانوں سے سیکھو کہ تمہاری آزادی اب زیادہ دور نہیں ہے- اور ایک راز کی بات بتاؤں؟ میں کل صبح پہلی کرن غزہ کی پٹی پہ نچھاور کروں گا کیونکہ وہیں سے مجھے بھی امید کی کرن ملے گی- میں بہت تھک گیا ہوں- مجھے نئی صبح کے لئے امید کی تلاش ہے-