غلطیاں پھر دھرائی جارہی ہیں

“جدا ہم ہو گئے لیکن محبت کم نہیں ہوگی”

“ماضی کا پاکستان آج کا بنگلہ دیش ہے جہاں 30 دسمبر1906ءکو برصغیر میں عوامی تحریک مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور سب سے پہلے دو قومی نظریہ مجسم صورت میں بنگالی لیڈر اے کے فضل الحق نے پیش کیا جنہیں شیر بنگال کہا جاتا ہے بعد اذاں یہی قرارداد قیام پاکستان کی وجہ بنی اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں جمہوریت کبھی نہ رہی منتخب حکومتوں اور ملٹری ڈکٹیٹر نے جمہوریت کا خوب مذاق اڑایا نتیجتأ جاگیردار وڈیرے، ملٹری اور سول بیوروکریسی چھاگئی، اس مادہ پرستانہ فکر اور اقتدار کی ہوس نے پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔

دراصل قیام پاکستان سے پہلے ہی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر انگریزوں کے غلام کانگریس سے نکل نکل مسلم لیگ میں سازشی طور پر شامل ہوئے تاکہ پاکستان میں بھی تسلط جمائے رکھیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان آزاد ریاست ہونے کے باوجود آج انگریزوں کا غلام نظر آتا ہے۔

قائد اعظم قوم کی تربیت چاہتے تھے انہی کی ہدایت پر مولانا مودودی رحمتہ اللہ کی تقاریر ریڈیو پاکستان سے نشر کیجاتی جو اب کتب کی صورت میں موجود ہیں بد قسمتی سے قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہوا اور اقتدار اعلی پر کانگریس کے در پردہ غلام جرنیلوں اور جاگیردار وڈیروں کا قبضہ کیا 77سالہ تاریخ میں 33 سال مارشل لاء رہا باقی جاگیردارانہ نظام کا قبضہ ہوا انہی سامراجی طاقتوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ مشرقی پاکستان محرومیوں کا شکار ہوا محلاتی سازشوں کی وجہ کی بدولت پاکستان دو ٹکڑے ہوا یہ پاکستان سے چمٹے ہوئے دیمک جو پاکستان کو آہستہ آہستہ کھارہے ہیں۔

سقوط ڈھاکہ تو ایک نتیجہ کی صورت میں ہمارے سامنے آیا پس پشت برسوں پرانا وہ ناروا سلوک ہتھک آمیز رویہ تھا جو مشرقی پاکستان کے ساتھ روا رکھا گیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان اور کلچر کےفرق نے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کو علیحدہ کیا مگر یہ فرق تو موجودہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں واضح نظر آتا ہے، اللہ کا شکر ہےکہ وہ پاکستان کا حصہ ہیں بنگال پاکستان کی شہہ رگ تھا سب سے مضبوط مسلم بلاک شائد یہی وجہ تھی پہلے بنگال کو الگ کرکے کمزور کرنا چاہتے تھے اسی وجہ سے قیام پاکستان کے بعد عربی زبان کی پیشکش کو ٹھکرادیا گیا کہ اسکا تعلق تو خالصتأ اسلام سے تھا مغربی جمہوریت میں دین انفرادی معاملہ ہے اجتماعی طور پر اسلام ہی غالب ہوتا اور وہ کانگریس کے بھیجے ہوئے غلاموں کے لئے موت کے مترادف ہوتا۔

وزیر قانون جنرل اباھیم(بنگال) کےمنع کرنے کے باوجود جنرل ایوب نے آئین توڑااور صدارتی آئین نافذ کیا جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنا اسکندر مرزا کے 1958ء میں مارشل لاء نافذ کیا جسکے بعد مشرقی بنگال میں فسادات شروع ہوئے 71 کے انتخابات میں عوامی لیگ(شیخ مجیب الرحمن)نے 186 سیٹ حاصل کیں اور پیپلز پارٹی(بھٹو)نےصرف86 سیٹ حاصل کیں عوامی لیگ نے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں دو تہائی اکثریت حاصل کی لیکن صدر مملکت جنرل یحیٰ خان نے جمہوریت کا گلا گھونٹا اور بھٹو کو وزیر اعظم نامزد کیایہ تھی وہ تاریخی غلطی جسکی وجہ سے مشرقی پاکستان میں شدید مظاہروں کا آغاز ہوا باقی کسر مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن نے پورا کردی اور پھر بھٹو کے تاریخی الفاظ جو عوام کبھی نہ بھول پائے “کہ پاکستان بچ گیا”مگر افسوس پاکستان کے عوام آنسوؤں میں ڈوب گۓ۔

کیا آج بھی ہمارے ایوانوں میں شیخ مجیب اور بھٹو براجمان ہیں وطن عزیز کی کمانڈ یحیٰ خان جیسے عیاش اور نا اہل کمانڈر کے ہاتھ میں تو نہیں ہےکیونکہ آج بھی اقتدار جیت رہا ہے اور پاکستان ہار رہا ہے کردار بدلتے رہتے ہیں مگر کہانی وہی پرانی ہے کیونکہ کراچی اور دوسرے شہروں کے ساتھ بھی وہی غلطیاں پھر دھرائی جارہی ہیں گدھ منڈلا رہیں چاروں طرف خیر ہو آشیانے کی”۔