میرا پہلا ووٹ

سال میں چار موسم ہوتے ہیں۔ ربعیہ نے کہا۔ نہیں پانچ ہوتے ہیں۔ وہ کون سے ؟ ربعیہ نے استفسار کیا ؟

سردی،گرمی،خزاں ،بہاراور الیکشن کا موسم۔ آج کل الیکشن کا موسم ہے۔ ہر طرف رنگ برنگے جھنڈوں کی بہار ہے، جہازی سائز بل بورڈ آویزاں ہیں۔ جگہ جگہ بینرنصب ہیں۔ ہر شخص اپنی پارٹی، اپنے لیڈر کے لئے رطب السان یے۔ اور زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا ہے۔

اصف دروازہ کھولو کسی نے دستک دی ہے۔ امی نے کہا

ہاں جا رہا ہوں موبائل پر گیم کھیلتے ہوئے آصف نے جواب دیا۔ (آصف کی ) کوشش تھی کہ یہ لیول مکمل کر لے۔ ادھر بار بار دستک دی جا رہی تھی۔ امی نے فا ہوتے ہوئے کہا آصف جلدی دروازہ کھو لو اتنی شدید گرمی میں کوئی دوپہر میں دروازہ پر کھڑا ے، بری حالت ہورہی ہوگی۔

آصف کسل مندی سے آٹھ کر دروازے پر گیا اور دروازہ کھول دیا انعم آپی ادھر آئیں یہ محترمہ آپ سے بات کرنا چاہ رہی ہیں”۔جی فرمائیے ”انعم نے شائستگی سے کہا۔

السلام علیکم ! خواتین نے سلام کیا پھر کہا ہم جماعت اسلامی کے نمائندگان ہیں اپنی تحریک اور اپنے نشان کا تعارف لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ آپ جانتی ہیں دور حاضر میں یہ واحد جماعت ہے جو کراچی کے حقوق کے لئے کوشاں ہے۔

ہمیشہ ضرورت کے وقت آپ کے درمیان آپ کے ساتھ ہوتی ہے۔ جب کے دیگر جماعتیں صرف اسکرین پر نظر آتی ہیں۔ برساتی مینڈکوں کی طرح صرف الیکشن میں نظر آتی ہیں پھر منظر سے غائب ہو جاتی ہیں۔

الیکشن کب ہورہے ہیں؟ انعم نے سوال کیا جولائی میں۔ خواتین نے جواب دیا۔ ہمارا انتخابی نشان ترازو ہے۔ آپ کا شناختی کارڈ ہے؟ خواتین کاسوال

انعم نےانتہائی خوشی سے اپنا شناختی کارڈ دکھایا۔

اس کے لہجہ سے اس کے رویے سے انتہائی خوشی جھلک رہی تھی وہ اس کی چکنی سطح پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔

آپ نے اس سے پہلے ووٹ دیا ہے؟ خواتین نے سوال کیا نہیں یہ میرا پہلا ووٹ ہو گا۔ اب میں بھی پاکستان کے فیصلے میں حصہ لے سکتی ہوں۔ میری رائے کی بھی اہمیت ہے۔

خواتین کو رخصت کرکے انعم اندر آگئی اور الیکشن اور ووٹ کے بارے میں سوچتی رہی۔

دو دن بعد صبح سویرے اٹھ کر نماز ادا کی اپنے لئے اپنے، ملک کے لئے، اپنی تحریک کے لئے،اپنے رہنما کے لئے دعا کی۔ ناشتا کیاگھریلو امور سے فراغت کے بعد ووٹ ڈالنے گئی۔ اُف اتنی لمبی لائن، اتنی شدید گرمی ، مگر ووٹ تو لازمی ڈالنا ہے یہ تو گواہی ہے۔ اللہ اللہ کر کے نمبر آیا اپنا ووٹ ڈالا اور واپس گھر آگئی۔

انگوٹھے پر لگا روشنائی کا نشان میرے فخر، میرے غرور کی علامت تھی۔ یہ روشنائی انعم اور اس جیسے بہت سے لوگوں کے روشن مستقبل کی نوید تھی۔ جو تعلیم مہنگی ہونے کی وجہ سے اچھے تعلیمی اداروں میں نہیں جا سکتے۔ ان نو جوانوں کے لئے جو ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی ملازمت حاصل نہیں کر پا تے یا شہر کے حا لات خراب ہو نے کی وجہ سے کاروبار نہیں کر پا تے۔ انعم نے سو چا، “میں نے اپنے وطن کے لئے کچھ اچھا، کچھ خاص کیا اچھے لوگوں کو منتخب کیا۔ میری استطاعت بس اتنی ہی تھی اللہ بھی صرف ہم سے ہماری استطاعت کے مطابق ہی سوال کرے گا اس سے زیادہ نہیں۔