بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کر لیا۔ انہوں نے ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ انتخابات سے قبل مجھے نااہل کرنا میرے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ عمران خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جلد بازی کا مظاہرہ کرکے مجھے 8 اگست کو آرٹیکل 62 ایک ایف کے تحت 5 سال کے لیے نااہل قرار دیا، عمران خان نے استدعا کی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور توشہ خانہ کیس میں سزا کا فیصلہ معطل کیا جائے، توشہ خانہ کیس میں سزا پہلے ہی معطل ہوچکی ہے لیکن ہائی کورٹ نے صرف سزا معطل کی، پورا فیصلہ نہیں کیا۔ ہائی کورٹ فیصلے میں غلطی کا الیکشن کمیشن نے فائدہ اٹھایا اور بانی پی ٹی آئی کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ بانی پی ٹی آئی نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ انتخابات قریب ہیں، بانی پی ٹی آئی ملک کے سابق وزیراعظم ہیں، ملک کی سب سے بڑی جماعت کے لیڈر کو انتخابات سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔
پاکستانی کرتا دھرتاؤں، سیاسی، مذہبی پارٹیاں ہوں یا ملک بھر کے عوام، نہ ان کا ذہن اور سوچ جمہوری ہے اور نہ ہی آمریت ان کو پسند آتی ہے۔ جب پاکستان نے پہلی بار حقیقی جمہوریت کی جانب قدم اٹھایا تھا تو وہ 1970 کے الیکشن تھے۔ اس وقت تک پاکستان کے مشرقی اور مغربی بازو ایک ہوا کرتے تھے۔ وہ شاید تاریخ کا پہلا الیکشن تھا جس کو مکمل آزادانہ و منصفانہ کہا جا سکتا ہے۔ جس انداز میں پورے پاکستان کے ایک ایک ووٹر نے ولولے اور جذبے کے ساتھ حصہ لیا وہ تاریخ میں ان مٹ نقوش چھوڑ چکا ہے۔ اس انتخابات کے نتیجے میں پورے ملک کے عوام نے بہت واضح طور پر دو سیاسی جماعتوں پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ ایک مجیب الرحمن کی عوامی لیگ تھی اور دوسری ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی۔ بد قسمتی سے مشرق میں عوامی لیگ کی کامیابی اور مغرب میں بھٹو کی کامیابی نے پاکستان کے عوام کو جمہوری سے اتنا غیر جمہوری بنایا کہ ایک ملک دو حصوں میں بٹ کر رہ گیا۔ یہ رویہ اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ بحیثیت قوم ہم نہایت غیر جمہوری اور ایک دوسرے سے انتہائی درجے کا تعصب رکھنے والی قوم ہیں اور ہم جمہوریت کی “ج” سے بھی واقف نہیں۔ یہ غیر جمہوری طرزِ عمل اور رویہ تا حال جاری ہے جس کی وجہ سے وہ غیر جمہوری قوتیں جو 1947 سے آج تک ایسے موقعوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتی رہی ہیں، غالب آتی رہیں۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا رواج بن چکا ہے۔ ایک جانب عوام کا یہ رویہ ہے تو دوسری جانب جن کے اندر یہ صلاحیت اور قدرت ہے کہ وہ قوم کو جوڑ کر رکھ سکیں وہ بجائے بھائیوں بھائیوں کو ملانے کے ہر مضبوط سیاسی و مذہبی جماعتوں کو پھاڑنے مصروف رہتی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان بہر لحاظ ایک ایسے دوراہے پر آن کھڑا ہوا ہے کہ کسی بھی وقت کوئی بہت بڑا سانحہ جنم لے سلتا ہے۔
بانی پی ٹی آئی بھی اسی نہایت غیر جمہوری معاشرے کا ایک جزوِ لاینفک ہیں۔ بے شک ان کی یہ شکایت بجا ہے کہ الیکشن سے قبل ان کو 5 سال کے لئے نااہل قرار دینا بہت ہی غیر جمہوری عمل ہے لیکن 2018 کے الیکشن کے وقت بھی بالکل اسی طرح کا معاملہ تھا۔ ملک کی ایک مضبوط اور بڑی حکمراں پارٹی کے سربراہ کے خلاف عدالت کا ایک غیر فطری فیصلہ سامنے آیا تھا جبکہ وہ اس وقت وزارتِ عظمیٰ پر فائز تھا۔ وہ وقت اس فیصلے پر احتجاج کرنے کا تھا لیکن خان صاحب کی پارٹی نے خوشیاں منا کر اس بات کی تصدیق کی کہ وہ “سچے پاکستانی” ہیں۔ غیر جمہوری رویوں کا یہ سلسلہ کوئی اب کا نہیں۔ مجیب الرحمن، بھٹو، نواز شریف، محترمہ بے نظیر جیسے سب سیاسی سربراہان اس رویے کا شکار رہے ہیں اور ہر ایک کے خلاف لیا جانے والا عسکری و عدالتی فیصلہ مخالف پارٹیوں کیلئے خوشی و انبساط کا سبب بنتا رہا ہے۔
جمہوریت کا مطلب ہی یہ ہے کہ معلوم کیا جائے کہ “جمہور” کیا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی خطہ زمین کے عوام اپنے ملک کا حصہ بن کر نہیں رہنا چاہتے تو بین الاقوامی قانون کی نظر میں اس مطالبے یا سوچ کو “بغاوت” سمجھا ہی نہیں جاتا جس کی حالیہ مثال اسکاٹ لینڈ کا ریفرنڈم ہے۔ کیا اسکاٹ لینڈ والوں کی ایسی تحریک کو بغاوت سمجھا گیا اور ناکامی پر رہنماؤں کو سزائے موت سنائی گئی۔ اسی طرح مقتدر قوتوں اور عدالتوں کا اپنی جانب سے کسی فرد یا پارٹی کو ملک دشمن قرار دے کر اس کو جمہوری عمل سے ہی باہر کر دینے کے بعد یہ سمجھ لینا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، مجذوب کی بڑ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ یہ بات نہ صرف مقتدر اور حقیقی حاکموں کے سوچنے کی ہے کہ وہ پاکستان کو کیا بنانا چاہتے ہیں، جمہوری ریاست یا امرانہ اسٹیٹ بلکہ ہر وہ سیاسی و مذہبی پارٹی جو اپنے تئیں خود کو جمہوریت کا چمپئن سمجھتی ہے، وہ بتائیں کہ وہ کتنے جمہوری ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر غیر جمہوری فیصلے پر، خواہ وہ کسی کے خلاف بھی دیا جائے، جب تک سب پارٹیاں مٹھائیاں بانٹنے کی بجائے، ایک جھنڈے تلے جمع ہو کر ایسے فیصلوں کے خلاف اٹھ کھڑی نہیں ہونگی، اسی طرح ایک ایک کرکے توڑ پھوڑ کا شکار کی جاتی رہیں گی۔ جمہویت کو مضبوط کرنا ہے تو پھر یہ بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ،،،،
سب دکھ، سکھ بناجائیں، ہم
سمجھیں سب کے اپنے دکھ