نئے سال کا آغاز

وقت گزرتا ہے مگر آہٹ نہیں ہوتی

غافل یہ گھڑیال تجھے دیتا ہے منادی

گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی

ہر لمحہ گھڑی کی ٹک ٹک سب کو سنائی دیتی ہے لیکن یہ صرف صاحب بصیرت کو غور کرنے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس کا شعور اُسے وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس دلاتا ہے۔ صرف وہی سمجھ سکتا ہے کہ گزرنے والا کوئی لمحہ دوبارہ واپس نہیں آتا۔ اس طرح حیات نا پائیدار کے کتنے ہی ماہ و سال گزر گئے ۔ ابھی مشکل سے 2023 لکھنے کی عادت ہوئی تھی کہ 2024 کے استقبال کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ نئے عیسوی سال کی آمد پر خوشیاں منائی جائیں گی۔ سال نو کی مبارکباد کا شور اٹھے گا۔ جبکہ مومن کا دل پریشان ہوتا ہے اور دماغ سوچوں میں گم ہوتا ہے کہ حیات دنیوی کا ایک سال گزر گیا۔ اس میں حیات اخروی کے لئے کیا جمع کیا؟ کیا کھویا کیا پایا ؟ اعمال صالحہ میں اضافہ ہوا یا کمی ہوئی ؟ جنت کے حصول کے لیے کتنی کاوشیں کیں ؟ کیا ان 365 دنوں کو اپنے لئے نفع بخش بنایا یا نقصان دہ؟ گویا ذہن میں خود احتسابی کا لاوا سا پکنے لگتا ہے ۔ ایسے میں خوشیاں کیسی ؟ اب تو غور و فکر ہے، تدبر ہے، ضائع شدہ وقت پر پچھتاوا ہے۔ آنے والے سال کا بہترین استقبال اس لئے ہے کہ الحمدللہ ابھی مہلت عمل باقی ہے۔ پچھلی کوتاہیوں کی معافی مانگتے ہوئے آئندہ کا میابی کے حصول کے لئےسعی و جہد تیز تر ہوگی۔ ہر آنے والے دن کو اپنے لیے مفید بنانے کی کوشش ہوگی کیونکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ایسی کوئی صبح نہیں ہوتی جب دو فرشتے پکار کر نہ کہتے ہوں ، اے آدم کے بیٹے ! میں ایک نیا دن ہوں اور تمھارے اعمال پر گواہ ہوں کیونکہ میں روزٍ قیامت سے پہلے واپس پلٹنے والا نہیں ہوں “( ترمذی شریف )

بلا شبہ وقت ایک بیش بہا دولت ہے۔ وقت دریا کا بہاؤ ہے کہ گزرا تو گزرتا چلا گیا اسے واپس آنے کا راستہ بھول جاتا ہے۔ ہر شخص کو وقت کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔ جو وقت کا ساتھ نہیں دیتا وہ پچھتاتا رہ جاتا ہے کیونکہ

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں

چلتی گاڑی کی یہ سیٹی نہیں بلکہ وقت کا نغمہ ہے کہ اب میں تو چل چکی ایک منٹ دیر سے پہنچنے والے میرا منہ دیکھتے رہ جائیں گے میں ٹھہروں گی نہیں ، وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایک بادشاہ بسترٍ مرگ پر پڑا ہے ۔ سامنے زر و جواہرات کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ خدام ہاتھ باندھے تعمیلٍ حکم کے منتظر کھڑے ہیں ۔ تخت و تاج ہے، راج ہے۔ اس کی ایک تمنا ہے، ایک آرزو ہے جس کے عوض وہ سب کچھ لٹانے کو تیار ہے۔ لیکن کون ہے جو اسے اس وقت زندگی کا ایک لمحہ بھی لادے یہ سب مجبور ہیں ، معذور ہیں اور گردن جھکائے کھڑے ہیں۔ آخر سکندر اعظم کی یہ خواہش اُس کے ساتھ ہی دفن کردی جاتی ہے۔

مومنانہ خصلت تو یہ ہے کہ ہمہ وقت احتساب پر کمربستہ ہو، اور موت کے لیے تیار رہے۔ جسے موت کی تیاری اور اُخروی کامیابی کی فکر ہو وہ کیونکر اپنا وقت ضائع کر سکتا ہے ؟ وہ طالب علم جسے امتحان میں سنہری کامیابی حاصل کرنے کی فکر دامن گیر ہو، وہ دن رات محنت کرتا ہے تو پھر مومن جسے دوزخ سے بچنا ہے اور جنت میں داخل ہونے کی سعی کرنا ہے کیا وہ بے کار مشاغل میں وقت ضائع کر سکتا ہے ؟ مجھے یاد ہے میری مرحومہ بہن رفعت اشتیاق جو رکن جماعت تھی جب بہن بھائیوں کو گپ شپ لگاتے اور میچ پر تبصرہ کرتے دیکھتی تو کہتی باجی ہمارے پاس ضائع کرنے کے لئے وقت نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی جسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے اُسے وقت کی قدر و قیمت کا بخوبی احساس ہو جاتا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو کبھی فارغ نہیں پاتا ۔ اُسے تو اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اصلاحٍ معاشرہ کا فریضہ انجام دینا ہے۔خلیفة الارض ہونے کی بناء پر اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنے کی سعی کرنا ہے۔ یہ کام ، ہمہ وقت کرنے کا ہے اور تاحیات کرنے کا ہے۔ فرصت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے

نورٍ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

آئیے نئے سال کے آغاز پر یہ عزم کریں کہ آئندہ فضول مشاغل میں وقت ضائع نہیں کریں گے بلکہ اسکے ہر لمحہ کو اپنی دنیا اور آخرت کے لیے مفید بنانے کی کوشش کریں گے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

یاد رکھ وقت کے مقولوں کو

دیکھ مرجھانے والے پھولوں کو

ہم فراموش کر نہیں سکتے

زندگی کے اٹل اصولوں کو