نظام عدل پر پھر سوالیہ نشان

پاکستان میں عدلیہ کو جمہوریت کا ستون سمجھا جاتا ہے مگر عدلیہ کی کارکر دگی پر بار بار سوالیہ نشان لگتا ہے اور سوالیہ نشان اس لیے لگتاہے کہ جو فیصلے آتے ہیں ان میں انصاف نظر نہیں آتا ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس ادارے کے کچھ فیصلوں میں کچھ خاص لوگوں کی طرف جھکاؤ زیادہ ہے اور فیصلے ان کی مرضی سے ہوتے ہیں قانون اور میرٹ کی بنیادپر نہیں ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس وقت دو اہم کیسز زیر سماعت ہیں۔

ایک کیس ذوالفقار علی بھٹو کےعدالتی قتل کا ریفرنس 2011ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ بھیجا تھا مگر وہ سماعت کے لیے 2012ء میں ایک بارمقرر ہواتھا ۔ پھر اس کے بعد 2023 ء میں یعنی 13 سال کے بعد سماعت کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ تو اس سے انصاف کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انصاف کے ایوانوں میں کیسے لوگوں کو انصاف ملتاہے۔ یہ کیس ایک صدارتی ریفرنس کی بنیاد پر زیرسماعت ہے اور اس کیس کو میرٹ کی بنیاد پر دیکھنا چاہیے۔ اس ریفرنس میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے پانچ سوالات پوچھے ہیں ۔ ریفرنس بھٹو کے مقدمے کی قانونی حیثیت اور انصاف پسندی کو چیلنچ کرتے ہوئے اہم سوالات اٹھاتا ہے کہ کیا بھٹو کے مقدمے میں ان کے آئینی حقوق کااحترام کیا گیا تھا ؟ کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ آرٹیکل 189 کے مطابق تمام ہائی کورٹس کے لیے ایک مثال قائم کرے گا؟ کیا سزائے موت غیر جانبدارانہ اور تعصب سے پاک تھی؟ کیا سزائے موت قرآنی اصولوں کے مطابق ہے؟ کیا مقدمے کے دوران پیش کیے گئے ثبوت اور گواہی سزا کے لیے کافی تھی؟۔

ان پانچ سوالوں کا جواب بہت آسان ہے کہ ہاں یا نہیں۔ جب کسی کی طرف سے کسی سوال کا جواب نہیں آتا ہے اس کا مطب ‘ہاں ‘ ہے۔ اس کیس میں بھی جواب نہ آنے کا مطلب ہے کہ ‘ہاں’ اس وقت کے ججز نے ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں تمام بنیادی حقوق اور چیزوں کو نظر انداز کیا گیا اور چند لوگوں کے کہنے پر پاکستان کا ایک منتخب وزیر اعظم کو سزائے موت دے دی گئی تھی۔ عدالت کی روایت بھی عجیب ہے کہ کبھی کبھی ہائی کورٹ کا فیصلہ سیکنڈوں میں اڑا دیتی ہے اور کبھی کبھی ہائی کورٹ کے فیصلوں میں ججز چھٹیوں پر چلے جاتے ہیں اور فیصلے برقرار رکھ دیئے جاتے ہیں، جس طرح ذولفقار علی بھٹو کی کیس میں ہوا تھا کہ اس وقت کے چیف جسٹس انوار لحق، جسٹس محمد اکرم، جسٹس اکرام الہٰی چوہان اور جسٹس نسیم حسن چوہان نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا جب کہ جسٹس دراب پٹیل جن کا تعلق بلوچستان سے تھا، جسٹس غلام صفدر شاہ جن کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا اور محمد حلیم جن کا تعلق سندھ سے تھا بھٹوکے حق میں فیصلہ دیا گیا اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو غلط قرار دیا تھا ۔کیا آج کی عدالت اس کیس میں معافی مانگے گی؟ کیا قوم سے وعدہ کرے گی کہ آئندہ کسی کے کہنے پہ ایسے فیصلے نہیں کریں گے؟

دوسرا کیس سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا ہے جو سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے ۔ یہ کیس بھی بڑا دل چسپ ہے کہ جب شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنئیر جج تھے تو ان پر کچھ کیسز میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید ، ریٹائرڈ بریگیڈئیر عرفان رامے ، فیصل مروت، طاہر وفائی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس انور خان کاسی اور اور سپریم کورٹ کے سابق رجسٹرار ارباب محمد عارف کچھ کیسز میں ان پر اثر انداز ہوتے تھے ۔ سپریم کورٹ نے ان میں سے کچھ فسران کو نوٹسز جاری کر دیئے ہیں۔

اب دیکھنا ہوگا کہ اعتراضات میں حقیقت اور سچائی کتنی ہے ۔مگر اس کیس کو میرٹ کی بنیاد پر دیکھنا چاہیے اور قصورواروں کو سخت سزا ئیں دینی چاہیے اگر وہ قصوروار ثابت ہوتے ہیں ۔یہ کیس اس وجہ سے اہم ہے کہ 2018 ء میں سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے روالپنڈی سیشن کورٹ کی بار کونسل سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس کے اہلکار عدالتی کارروائی میں ہیرا پھیری کر رہے ہیں اور دعویٰ کیا تھا کہ ایجنسی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد انور خان کاسی سے رابطہ کیا تھا کہ ہم انتخابات تک نواز شریف اور ان کی بیٹی کو جیل سے باہر نہیں آنے دینا چاہتے اور شوکت عزیز صدیقی کو اس بنچ میں شامل نہ کریں جو شریفوں کی اپیلوں کی سماعت کررہا ہے لیکن جسٹس صدیقی نے اپنے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ یہ کیس بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ قانون کے مطابق دونوں کیسز چلنے چاہئیں اور قانون کے مطابق سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنا چاہیے۔