نگراں وزیر اعظم غلط بھی نہیں 

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے قابض اسرائیل کے خلاف قائداعظمؒ کے مؤقف کی مخالفت کردی۔ جمعرات کو نجی ٹیلی ویژن کے پروگرام میں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے معاملے پر قائد اعظم کے مؤقف سے اختلاف کفر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کے 2 ریاستی حل کی تجویزپاکستان یا میں نے نہیں دی، 2 ریاستی حل کی بات پوری دنیا کررہی ہے، 2 ریاستی حل ہی مسئلہ فلسطین کا واحد حل ہے۔ ایک ریاستی حل کے لیے اگر کسی کے پاس کوئی تجویز موجود ہے، جنگ یا مذاکرات یا کسی اور صورت میں، تو وہ پیش کرے، یہ تاثر درست نہیں کہ فلسطین کا دو ریاستی حل ہم نے دیا۔ انوارالحق کاکڑ کے بقول اگر پاکستان کی پارلیمان اور تمام سیاسی جماعتیں اور انٹیلی جنس ایجنسیاں سوچ بچار کرکے قائداعظم کی رائے سے مختلف نتیجے پر پہنچتی ہیں تو یہ کفر کے زمرے میں نہیں آتا تاہم اس پر بحث ہوسکتی ہے کہ یہ ہونا چاہیے یا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس طرح فلسطین میں بچوں کی شہادتیں ہوئی ہیں تو پھر بتائیں کہ اور حل کیا ہے۔ نگراں وزیراعظم نے مزید کہا کہ فلسطینیوں سے پوچھا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، جن کے بچے شہید ہورہے ہیں پہلا حق ان کا ہے کہ ان سے پوچھا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

نگراں وزیرِ اعظم کے پورے بیان میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں جس پر کفر کا فتویٰ جاری کیا جا سکے۔ کفر تو اس وقت بھی noiN کیا گیا جب پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی اسلامی نظام کا اعلان کرنے کی بجائے فرنگیوں کے نظام کو جاری رکھنے کا کھلا اعلان کرکے، خلیفہ بننے کی بجائے گورنر جنرل بننا قبول کر لیا اور جس نظام کے خلاف مسلمانان ہند دو سو سال تک لڑتے رہے اور قیامِ پاکستان کے اعلان کے بعد دورانِ ہجرت ٹرینوں پر ٹرینیں کٹی ہوئی لاشیں لاتی رہیں، کفر تو اس وقت بھی نہیں کیا گیا۔ مسلمانانِ ہند کی قربانیوں اور بہتے ہوئے سرخ خون کا احساس کرنے کی بجائے، کفر و شرک اور خدا سے بغاوت کے نظام کو پاک سر زمین پر مسلط کرنے پر بھی جب کفر کا فتویٰ کسی غیرت مند مسلمان نے اعلیٰ قیادت پر نہیں لگایا تو بھلا قائدِ اعظم کی کسی نظریاتی بات پر کوئی اختلافی رائے یا کسی فیصلے پر کفر کا فتویٰ کیسے دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ بات اچھی طرح مان لینی چاہیے کہ قائد کے کسی فیصلے یا پالیسی سے اختلاف کرنا کسی بھی صورت کفرِ عظیم کے زمرے میں نہیں آتا۔

ہم پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں، ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا کرتے ہیں جبکہ بہت بڑے بڑے معاملات پر ہماری پیشانی پر کوئی گرہ تک نہیں پڑتی۔ یہ بات صرف صرف مذہبی، مسلکی یا سیاسی امور تک ہی محدود نہیں، عام سماجی اور سقافتی رسومات پر بھی اکثر ایسا ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ شادی بیاہ پر وہ کونسی رسم ہے جو کافرانہ نہیں ہوتی اور ان رسوم پر آنے والے بھاری اخراجات پر کسی کو کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ ایسے سارے معاملات میں ایک دوسرے پر برتری کا کا جذبہ ہر دوسرے موقع پر مزید اخراجات کا بوجھ بڑھانے کا سبب بن جاتا ہے۔ لڑائی کبھی ان بھاری اور فضول اخراجات پر نہیں ہوتی دیکھی گئی لیکن سالیاں اگر جوتا چھپائی پر چند ہزار کی فرمائش کردیں تو قیامت برپا ہو جاتی ہے۔ جب پاکستان بنانے کا مقصد تھاہی نظامِ اسلام کا نفاذ تو اگر یہاں ایک لمحے کیلئے بھی وہ نظام نافذ کرنا اعلیٰ قیادتوں نے آج تک گوارہ نہیں کرکے اللہ تعالیٰ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا ہوا ہے تو “دو” یا “ایک” ریاستی پالیسی کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ جب پاکستان خود دنیا کے دیگر ممالک ہی کی طرح کا ایک ملک ہے اور جہاں اللہ کے نظام کی بجائے “مرضی” کا نظام چلتا ہے تو کیا حرج ہے کہ “سب” کچھ مروج کر دیا جائے۔

وزیرِ اعظم فرماتے ہیں کہ ہم اس کے علاوہ اور کر ہی کیا سکتے ہیں۔ کیا یہ کہنا ان کا غلط ہے؟۔ فلسطین پر کئی دھائیوں سے ظلم ستم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے ہیں، پاکستان نے کبھی کچھ کیا۔ کشمیریوں پر آج تک ظلم و ستم برپا ہے، کیا پاکستان نے کوئی مؤثر کارروائی کی۔ اسلامی ممالک میں امریکا نے بمباری کرکے ان کو کھود کر رکھ دیا، پاکستان نے تماشہ دیکھنے کے علاوہ کچھ کیا۔ افغانستان میں روس و امریکا نے جسمانی مداخلت کی، کیا ہماری افواج لڑنے کیلئے نکلیں۔ اگر ماضی میں پاکستان کسی بھی معاملے میں کبھی کچھ نہیں کر سکا تو وہ فلسطین سے ہزاروں میل دور رہ کر کیا کر سکتا ہے۔ ہے نا سوچنے کی بات۔

ہماری عسکری قوتیں کیا کچھ نہیں کر سکتیں۔ نہتوں کو تو کچل ہی سکتی ہیں، کیا بنگالی مسلمان نہیں تھے، دنبہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ ایوبی دور کے کراچی پر جو باقائدہ حملے ہوئے ان کو بھولا جا سکتا ہے۔ 11 برس تک کچے کے آپریشن کے نام پر بے گناہوں پر ڈھایا جانے والا ظلم نظر انداز کرنے کے قابل ہے۔ کیا آپریشن کلین اپ اور ضرب عضب کافروں کے خلاف کئے گئے تھے۔ کیا طالبان روس، چین، امریکا یا غیر ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ ہماری ساری توانائیاں یا تو نہتوں پر یا کم مسلح دستوں پر تو پوری ریاستی قوت کے ساتھ مؤثر طریقے سے غالب رہی ہیں یا مختلف قسم کی جنگی مشقوں پر صرف ہوتی رہی ہیں لیکن کبھی دنیا بھر کے مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کے خلاف ایک گولی بھی کہیں چلتی نظر نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ جناب نگراں وزیر اعظم اگر یہ کہیں کہ “ہم اور کربھی کیا سکتے ہیں” کہاں سے غلط ہو گیا۔

فرماتے ہیں کہ کہ پہلا حق فلسطینیوں کا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، دو ریاستی فارمولا یا ایک ریاستی نظریہ۔ اگر اب بھی ان کو فلسطینیوں کی رائے کا علم نہیں ہو سکا ہے تو ان کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ کیا انھیں فلسطینیوں کے اتنے بڑے پیمانے پر حملے کا اور اس کے بعد سے تا دمِ تحریر قربانیوں کا بالکل بھی علم نہیں؟۔ کیا یہ سب کچھ “دو” ریاستی قیام کیلئے ہو رہا ہے۔ ایسے بیان کے بعد بہت سارے پانی کی نہیں، چلو بھر پانی کی ضرورت ہے، سو میری طرف سے حاضر ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔