دسمبر اب کے تم آنا !۔

ہلکی ہلکی خنک ہواوں اور انسانی رویوں جیسی خشک فضا نے گھر کے جھروکوں سے جھانکنا شروع کر دیا ‘ سورج کی آنکھ مچولی تو ابھی اپنے خاص رنگ میں نہ آسکی لیکن جلدی منہ پھیر جانے کے لئے اس نے کمر کس لی شامیں پھر سے اداسی کی چادر اوڑھے ابھی سے ہی جلوہ گر ہیں  یہ استعارے بتانے لگے ہی اب دسمبر کا اداس مہینہ یہیں کہیں قریب میں ہی آن موجود ہے ۔

” دسمبر ” یہ پانچ حرفی لفظ ہمیشہ سے اداس کر دیا کرتا ہے بچپن میں سوچتے تھے کہ شاید سر شام گھروں میں دبک جانے کی وجہ سے اس مہینے میں زندگی کی روانی سست لگتی ہے لیکن شعور آتے آتے سمجھ میں آنے لگا کہ کچھ حادثات و سانحات نا صرف انسانی وجود بلکہ دن ‘مہینوں تاریخوں اور صدیوں کو بھی گھن لگا دیتے ہیں اور وقت جتنا چاہے مرہم لگا لے لیکن زخموں کی جلن ان کے نشانات کو ہمیشہ سرخ رکھتی ہے کبھی یاداشت سے محو نہیں ہونے دیتی بالکل اسی طرح دسمبر میں لگے دلوں کے زخم شاید کبھی اپنے نشانات کو مٹنے نہ دیں ‘سولہ دسمبر انیس سو اکہتر سانحہ مشرقی پاکستان جس میں وطن عزیز دو لخت ہوا اس سے جڑے تکلیف دہ واقعات کہ جیسے کانٹوں سے بھری اک مالا تھی جو دلوں کو لہو لہان کرتی رہی اور محبتوں کا خون رستے رستے بالآخر رشتوں کو موت کی نیند سلا گیا وہ سب جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے نئی بستیوں کو مل جل کر آباد کرنے اپنے پچھلوں کی سرداری ‘ جاگیرداری’ گھر بار اپنے بزرگوں کی قبریں تک آزاد وطن کی چاہ میں تیاگ آئے تھے کچھ فتنہ انگیز اپنوں یعنی بھیڑ کی کھال میں بھیڑیوں کو نہ پہچان پائے اور ذروں کی طرح بکھیر دئیے گئے۔ نہ جانے کتنی آنکھوں میں ساتھ رہنے بسنے کے سپنے چھپے ہوں گے لیکن سازشوں کے جال نے ہر آنکھ سے اس کا خواب نوچ لیا اور بھیانک تعبیر سے بارڈر کی لکیر بنا دی اس  طرف ہم اس طرف  تم کہہ کر” لے کے رہیں گے پاکستان  ‘بٹ کے رہے گا ہندوستان ” کے نعرے کو ” مشرقی پاکستان مغربی پاکستان ” سے تبدیل کر دیا۔

سانحہ مشرقی پاکستان کی بازگشت تو کبھی پرانی ہو ہی نہیں سکتی تھی کہ پھر اسی تاریخ پر سال کے فرق سے ایسا ہی تکلیف دہ واقعہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہرایا گیا اور کئی ماوں کے کلیجے دولخت نہیں بلکہ چھلنی چھلنی کر دئیے اس بار بھی سر زمین وطن پھر ایسی ہی کسی سازش کے نتیجے میں خون سے رنگ دی گئی اور خون بھی معصوم بچوں کا’ وطن کے مستقبل کا ‘ اس بار بھی دھرتی کو اپنا لہو پیش کرنے والوں کی آنکھوں میں مستقبل کے خوبصورت خواب تھے کسی کو مسیحا بننا تھا کسی کو سپاہ میں شامل ہو کر ارض پاک کی حفاظت کرنی تھی کسی کو صنعت لگا کر وطن عزیز کی شان بڑھانی تھی اور اس بار بھی کچھ  اپنوں نے اپنے ہاتھ غیروں کے ہاتھوں میں تھما کر اپنے ضمیروں اور معصوم جانوں کا سودا کیا ‘ یہ سانحہ بھی سرزمین پاک کے سینے پہ اک ناسور کی طرح ہمیشہ موجود رہے گا اور اسی لئے لگتا ہے کہ  وطن عزیز کی فضائیں ان سانحات پر انسانی جذبات سے زیادہ حساس رہیں اور خود پر سے دسمبر کی اداسی کو کبھی اتار پھینک ہی نہ سکیں اور نہ جانے ایسا کب تک رہے گا۔

خدا کرے کہ سر زمین پاک کا یہ نیلا آسماں کبھی وہ منظر دیکھ سکے جس سے دسمبر میں اتری خنکی اور خشک فضائیں اپنی اداس شاموں کا  لباس تبدیل کر کے نرم نرم پر نم روشنیوں سے جگمگانے لگیں قوم کا مستقبل ایسے ہاتھوں میں ہو جہاں سب کے لئےانصاف برابر ہو کسی گورے کو کالے پر فضیلت نہ ہوسازش نہ ہو اپنوں سے دھوکا نہ ہو۔۔ خدا کرے !