ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

قوت کاسرچشمہ در اصل ذات الہی ہے۔ قوت اور طاقت کا استعمال اگر خوف خدا اور تقویٰ کا تابع ہو تو پھر وہ انسانیت کیلئے رحمت اور باعث آرام ہے۔ جیسا کہ اللہ نےحضرت ذوالقرنین کو ہر طرح کے اسباب عطا فرمائے۔ مگر انہوں نے انسانیت کی خدمت، بغیر کسی لالچ اور ہوس سے کی۔ خدمت کے عوض سرمایہ نہیں بلکہ انسانی بھلائی اور فلاح و خیر کو ترجیح دی۔ اسکے بر عکس اگر یہی طاقت کا استعمال خوف خدا اور تقویٰ سے عاری ہوتو وہ سرکشی بن کر اللہ کے مد مقابل آن کھڑی ہوتی ہے قرآن اسے طاغوت کہتا ہے۔ یہ فساد فی الارض ہے۔ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں صدی میں مغرب نے اندھا دھند مادی ترقی کی۔ اور اسی ترقی کی بناہ پر یہ مغرور ھو گئے۔ تجارت کے بہانے کبھی ایشیا اور کبھی افریقہ میں داخل ہو کر حکمرانی کی اور کبھی حیرت انگیر ایجادات کے ذریعہ انسانیت کو اپنےزیر اثر رکھا۔ پہلی جنگ عظیم کے خون سے ابھی ان کی تلواریں رنگین تھیں کہ انہوں نے چند سال بعد جنگ عظیم دوئم دنیا پر مسلط کر د ی۔ پھر جاپان پر ایٹم بم گرایا اور دنیا پہ اپنی طاقت کا سکہ منوا کر اقوام متحدہ میں داد گیری سے ویٹو کا اختیارحاصل کر لیا۔ انسانی خون کے پیا سے ان گوروں کا اگلا ہدف ویتنام تھا۔ 1947 میں ہندوستان تقسیم ہوا اور 1948 ء میں اسرائیل کی بنیا د رکھ دی گئی۔1991 ء میں خلیج کی جنگ میں عراقیوں کا قتل عام کیا۔ بعدازاں سعودی عرب میں مستقل فوجی اڈا قائم کیا۔ پھر 20 سال تک افغانستان میں جنگ جاری رکھی اور اب ان فسادیوں کاحالیہ ٹارگٹ فلسطین غزہ ہے۔

یہ ملحد ہیں۔ فسادی اور سرکش ہیں۔ اللہ کی یہ زمین پرطاغوت بنے بیٹھے ہیں۔ یہ مسلم نسل کشی کا ہدف رکھتے ہیں انسانی آبادی کے دشمن ہیں۔ خاندانی نظام سے انہیں بیر ہے۔ اسلحہ اور ہتھیاروں کے علاوہ یہ انسانیت کو ٹرانس جینڈراور عمل قوم لوط سے بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اے مغرب والو! اے امریکیو! اے اسرائیلیو ! کیا تم دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد ہو۔ تم نے 30 سالوں میں ایک کروڑ مسلمانوں کا خون بہایا۔ افغانستان 20 لاکھ، عراق 20 لاکھ، شام 20لاکھ، لبیا 20لاکھ اور(فلسطین، کشمیر، یمن، بوسنیا، برما) میں لاکھوں افراد امریکہ اور یورپ کے ہاتھوں لقمہ اجل بنے۔ مگر تاریح گواہ ہے۔ کہ بہت سی متکبر اقوام کو اللہ نے ایک دوسرے کے ہاتھوں ہلاک کیا “تلك الايام ندوالها بين الناس ” ارشاد ربانی ہے کہ ہم ان ایام کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں کبھی ایک اور کبھی دوسرا۔ یہ عروج وقتی ہے بلاشبہ ظلم کو دوام حاصل نہیں ہوا کرتا ۔ کیونکہ اللہ کا قانون ہے”جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقاً ” لہذا ہمیں نہ مایوس ہونا ہے نہ جھکنا ہے یہ دبنا ہے۔ بلکہ شہادت حق کا علم اٹھاتاہے قرآن صاف کہتاہےان کا فروں کی نقل و حرکت تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے۔ یہ دنیا تھوڑا سا سامان حیات ہے پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے، آل عمران (197-96) ۔

غزہ کے شہید بلاشبہ اللہ کے غازی ہیں۔ القدس کے محافظ ہیں۔ جنت کے متلاشی ہیں۔ اللہ کی مدد ان کے ساتھ ہے۔مگروہ تنہا نہیں ہیں، ہمارے دل، دعائیں اور نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔ غزہ میں خون مسلم کی ارزانی پر سارے مسلم ممالک کے حکمران خاموش تماشائی بیٹھے ہیں یہ امریکہ کو سپر پاور مان کر اسکے مرید بنے بیٹھے ہیں اور اسکی نارا ضگی سے ڈرتے ہیں۔ ماضی میں اگر عوام نے اسلام کی علمبردار جماعتوں کو ووٹ دیئے ہو تے۔ تو آج ہر مسلمان ملک کے میزائیلوں کا رخ اسرائیل کی طرف ہوتا پھر اسرائیل مسلم کشی کی جرات کیونکر کرتا۔

پیارے لوگو ! اگر تم مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور بچاؤ چاہتے ہو تو ان لوگوں کو ووٹ دو۔ جو آج لاکھوں کی تعداد میں اہل غزہ کےلئے سراپا احتجاج ہیں۔

“ور نہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔