تنقید کا مقابلہ

زندگی کو کامیاب بنانے کیلئے کچھ مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے اسکول اور مدرسے میں تعلیم اور ڈگری تو دی جاتی ہے۔لیکن زندگی گزارنے کی بنیادی مہارتیں  نہیں  سکھائی جاتیں ۔تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا میں نیک اور برے ، لیڈر اور عالم ہر ایک کو بُرا بھلا ضرور کہا گیا ۔لیکن یہ تنقید ان بڑے لوگوں کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکی۔

اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے پاس دل بھی تھے اور ان کا دل ٹوٹ بھی جاتا تھا۔لیکن یہ لوگ تنقید کا سامنا کرنے کی صلاحیت سے واقف تھے۔کچھ صلاحتیں پیدائشی ہوتی ہیں۔ یہ خاص لوگوں کو ملتی ہیں۔ اور کچھ صلاحتیں پیدا کی جاسکتی ہیں۔اور پیدا اس وقت ہونگی کہ جب کوئی  بھی انسان اگر سچے دل کے ساتھ چاہے تو کسی بھی صلاحیت کو محنت کرکے اپنے اندر پیدا کرسکتا ہے۔

دراصل بات یونیورسٹی آف کراچی میں ہونے والی اپنی پریزنٹیشن کی ہے جب پروفیسر نے امتحان کو پریزنٹیشن کی صورت میں لیا ،اس وقت تعلیم اور ڈگری دونوں نا قابل تعریف بن گئیں  کیونکہ کسی کو کچھ بولنا ہی نہیں آرہا تھا یہ معاملہ میرے ساتھ بھی ہوا ۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب پریزنٹیشن کی تیاری کی جارہی تھی سب اپنے معیار پر تھا لیکن جب اسٹیج پر پہنچے سب بھول گئے کیونکہ کبھی ہمارے اسکولوں ، کالجوں میں اسطرح کی تیاری  کے لیے ایسے پلیٹ فارم مہیا نہیں کیے جاتے جن کے نا ہونے سے ہم باعث شرمندگی بن گئے ۔

خیر یہ تو زندگی میں چلتا ہے اور بات صرف طالب علم کی جائے تو اس کو تنقید سے سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لیے اپنے اوپر کی گئی تنقید کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر عمل کرے اور کامیابی محنت کی ضمانت دیتی ہے ۔

تنقید اس لیئے بول رہا ہوں کہ جب پریزنٹیشن ہورہی تھی وہاں کچھ طالب علم ایسے تھے جنہوں نے صرف تنقید کرتے ہوئے اپنی پریزنٹیشن کو بیان کیا جبکہ ان کو خود معلوم نہیں تھا کہ ہمارے عنوان باعث گفتگو ہیں یا نہیں ۔پریس کانفرنس کو ہی پبلک اسپیچ بولا جاتا ہے اور یہ بات صریحا درست ہے لیکن اپنا عنوان ہمیشہ جگہ کی مناسبت سے سلیکٹ کیا جاتا ہے۔

اب چھ ایسے نکات عرض کرتا ہوں جن پر عمل کرکے آپ تنقیدوں کا مقابلہ کر سکیں گیے۔

1. کسی کی تنقید کو آپ اہمیت نہ دیں

2. ہمیشہ اچھے لوگوں کی رائے کو ذہن نشین رکھیں اور انہیں باربار دہراتے اور یاد کرتے رہیں۔

3. آپ اپنے آپ کو پہچانیں۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھیں۔ اپنی خامیوں کو خوبیوں میں بدلنے کی کوشش کریں۔

4. تنقید کرنے والوں کی فطرت تنقید کرنا ہے۔ تو آپ ان کو چھوڑ دیں۔ آپ ان کی وجہ سے اپنے آپ کو نہ بدلیں۔ایک بات یاد رکھیں (کتے کی فطرت بھوکنا ہے)۔

5. آپ بڑا سوچیں ،چھوٹے جھگڑوں میں نہ پڑیں۔ کیونکہ ” بڑی منزل کے مسافر چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتے “۔

6. آپ اچھے لوگوں کی مجلس اختیار کریں۔کیونکہاچھا کام کرنے والوں پر تنقید کا اثر کم ہوتا ہے۔

 آخری بات جو سب باتوں سے اہم ہے۔کبھی بھی کسی کی تنقید آپ کی زندگی بدل کر رکھ دیتی ہے۔ کیونکہ تنقید کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن ایک فائدہ سارے مانتے ہیں کہ یہ ” آپ کے اندر سوئے ہوئے احساس کو جگاتی ہے “کیونکہ جس کو احساس نہ جگائے اسے کون جگا سکتا ہے۔

حصہ
mm
نوید احمد جتوئی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ میں آخری سال کے طالب علم ہیں لکھنے کا شوق، حالات حاضرہ میں نظر رکھتے ہیں، جبکہ سوشل میڈیا میں متحرک ہیں۔ روزنامہ جسارت کی ویب ڈیسک پر خدمات انجام دے رہیں ہیں۔