بچوں کے مسائل اوروالدین کاردِعمل

سات سال کی عمر سے بچے کافی حد تک اپنا کام خود کرنے کےعادی ہوجاتے ہیں۔ لیکن بڑھتی عمر اور جسمانی تبدیلیوں کے باعث اس عمر سے لے کر بالغ ہونے تک بہت سے مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہیں، اسی دوران بلوغت کا سائیکل چلتا ہے۔ ہارمونل چینجز بھی آتے ہیں، دوستوں اور اساتذہ سے بے پناہ اثر لینے کا معاملہ بھی سات سے بیس سال کے بچوں میں عموما زیادہ پایا جاتا ہے۔

صحت کے اثرات اور میڈیا کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو بلا سوچے سمجھے جذباتی طور پر اپنانے کا تاثر بھی عمومی طور پر ملتا ہے۔ والدین اور بزرگوں سے بد زبانی اس عمر کے بچوں میں عام پائی جاتی ہے۔ وہ اپنی ہر بات کو صحیح اور بزرگوں کی ہر بات سے اختلاف برائے اختلاف کرنے کو اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں صحیح اور غلط کی تمیز سکھانے کا کام اگر اس عمر میں ڈنڈے کے زور سے کیا جائے۔ تو وہ ڈنڈا گھوم کر والدین کے سر پر پڑنے کا بھی قوی امکان پایا جاتا ہے،(ازراہِ مذاق)۔

اس عمر کے بچوں کے والدین کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہےکہ آپ کا بچہ اس وقت بہت سی ذہنی اور جسمانی تبدیلیوں سے گزر رہا ہےاور آج کل کے دور میں سوشل میڈیا تک ہر بچے کی رسائی ہے تو وہ سوشل میڈیا پر غلط قسم کی دوستیوں میں بھی ملوث ہوسکتا ہے، نیز اپنے اسکول اور محلے میں بھی بری صحبت کے اثرات لے سکتا ہے، صحبت کے علاوہ ہر انسان کے اندر آدم کی شخصیت بھی ہے اور شیطانی خصائص بھی، اب اگر اس کو ایسا ماحول مل گیا کہ شیطانی جذبات حاوی ہوگئے تو وہ کسی قسم کے گناہ میں بھی ملوث ہو سکتا ہےاور اگر وہ آدم کی شخصیت کے سانچے میں ڈھل گیاتو وہ گناہ پر توبہ کرکے زندگی کو دوبارہ سے شروع کر سکتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اور گھر والے شروع کے سات سال بچوں سے اتنا مضبوط تعلق بنائیں کہ بچے گھر، ماں باپ، بہن بھائی کو اپنی safe space سمجھیں اور ان سے ہر اچھی اور بری بات مثبت اور منفی، شیطانی اور انسانی خیالات share کرسکیں۔ وقت پڑنے پرماں باپ سات سے چودہ سال کی عمر کے بچوں کے دوست بنیں اور ضرورت پڑنے پر ڈانٹ اور زبردستی بھی کریں لیکن یہ سب شروع کے سات سال پر منحصر ہےکہ بچہ آپ کو اپنے مسائل بتاتا ہے یا چھپاتا ہے۔ مسائل بتانے پر اسے ڈانٹنے یا خاندان کے سامنے بدنام کرنے کی بجائے ان کے ساتھ مل کر مسائل کا حل تلاش کریں اور رب تعالیٰ کاشکر ادا کریں کہ مسائل میں آپ کا بچہ آپ کے پاس آیا ہے۔ گھر سے باہر کسی منفی شخص کے منفی عزائم اور ناجائز خواہشات کی بھینٹ نہیں چڑھ گیا۔