ہائبرڈ نظام

آج کل پاکستان کی سیاست میں ہائبرڈ نظام یا حکومت کی اصطلاح زیادہ استعمال کی جاتی ہے، انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد یہ بات بہت حد تک واضح ہوگئی ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل سے اب تک جو کچھ ہوا ہے یا ہورہا ہے اس کا تعلق ہائبرڈ نظام سے ہے۔ یورپ کے ایک سیاسی تحقیقی سینٹر کے مطابق دو یا دو سےزیادہ چیزوں کے اشتراک کو ہائبرڈ نظام کہتے ہیں مگرہائبرڈ نظام یا حکومت میں آمریت اور جمہوریت کا اشتراک ہوتا ہے۔

ہائبرڈ حکومت سیاسی نظام کی ایک قسم ہے جو اکثر آمرانہ حکومت سے جمہوری حکومت میں نا مکمل جمہوری منتقلی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ ہائبرڈ حکومت اکثر ترقی پذیر ممالک میں پائی جاتی ہے اور اس نظام میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہمیشہ رہتا ہے جس کی وجہ سے ملک میں باہر سے سرمایہ کاری نہیں آتی ہے۔ بے روزگاری، ناانصافی اوردہشت گردی کے عناصر معاشرے میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔

سیاسیات کے اسکالرز کے مطابق ہائبرڈ نظام میں انتخابات تو ہوتے ہیں مگر آمریت کا عنصر اس میں ضرور موجود ہوتاہے،اسی وجہ سے ہارنے والے سیاست دان بعد میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہیں۔نظام میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آتی ہے، ریاستی ادارے کمزور ہوتے ہیں اور ان کی پالیسیز میں آمریت کا عنصر مداخلت کی صورت میں موجود ہوتا ہے۔ بعض اسکالرز یہاں تک کہتے ہیں کہ ہائبرڈ حکومت اصل میں آمریت ہے بس صرف چہرے جمہوری نظر آتے ہیں۔ انٹرنیشنل جمہوری ان بکس کے مطابق ہائبرڈ نظام میں انتخابات کبھی صاف اور شفاف نہیں ہوتے ہیں۔

سیاسی مخالفین کے خلاف ہر وہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے ان کو ہرایا جاسکتا ہے۔کرپشن اور لاقانونیت عروج  پر ہوتی ہیں، میڈیا آزاد نہیں ہوتا ہے، اور حکومتی معاملات میں اکثر مسائل ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اشتراک کامیاب ہوسکتا ہے؟ کیا اس اشتراک میں استحکام آسکتاہے؟ اس کا جواب ہے کہ بہت مشکل ہے کیونکہ ریاست کے بہت سے مسائل ہوتے ہیں اور ان کو حل کرنے کے لیے ماحول کا مستحکم ہونا بہت ضروری ہے اور ملکی نظام میں بہت سے عوامل ہر وقت گردش کرتے رہتے ہیں اور ان  تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے ہر ریاست اور ریاست کے باشندے کوئی نہ کوئی نظام مرتب کرتے ہیں۔

اس وقت دنیا میں بہت سے ایسےممالک ہیں جن میں آمریت ہے اور بہت سے ممالک میں جمہوریت ہے مگر ایسے ممالک بھی ہیں جن میں کبھی آمریت اور کبھی جمہوریت پنپتی ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس میں آمریت اور جمہوریت دونوں رہے ہیں مگر کسی میں بھی استحکام نہیں آیا ہیں۔ پاکستان میں آمریت ناکام تو رہی ہے مگرجمہوریت بھی ایک کمزور جمہوریت رہی ہے اس کی وجہ یہ ہےکہ اس ملک میں کسی بھی دور میں نظام کو قانون کے مطابق نہیں چلایا گیا بلکہ پسند ناپسند اور اپنی مرضی کے مطابق چلایا گیا حالانکہ قانون اور آئین میں مرضی نہیں چلتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ تجربات کا دور رہا ہے یہ ملک کبھی آمریت اور کبھی کمزور جمہوریت کا شکار رہا ہے ۔ملک ،ریاست اور ریاستی نظام ایک طے شدہ اصول کے تحت چلا یا جاسکتاہے جس کو  معاشرتی زبان میں آئین یا قانون کہتے ہیں۔

آئین اور قانون اس وجہ سے ضروری ہیں کہ نظام ایک ڈسپلن کے تحت چلا یاجائے جس میں استحکام ہو مگر پاکستان میں جب بھی کسی سیاست دان نے یہ کوشش کی ہے اس کو اقتدار سے نکالا گیا ۔ ہائبرڈ نظام کے بارے میں سیاسیات کے اسکالرز کہتے ہیں کہ ہائبرڈ نظام میں عوام کا اعتماد نظام سے اٹھ جاتاہے اور حق رائے دہی ختم ہوجاتاہے، ان کےووٹ کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق اس نظام میں مسائل کا حل، ترقی اور بیرونی تعلقات میں اکثر عدم استحکام رہتا ہے۔ اس نظام میں ریاست کے اہم لوگ شامل ہوتے ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ کا رول اہم ہوتاہے۔ ہائبرڈ نظام کا تجربہ تو پاکستان پہلے کر چکا ہے جو بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ کیا دوبارہ ایسا تجربہ کامیاب ہوگا؟ ہرگز نہیں۔ نظام اور ملک آئین اور قانون کے مطابق چلتے ہیں ،تجربات سے نہیں۔ اس وقت پاکستان جن مسائل کا شکار ہے وہ مسائل بہت گھمبیر اور حساس ہیں ۔ملک کا مستقبل ان مسائل سے جڑا ہوا ہے جن کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلا ًامن وامان، انصاف، روزگار، میرٹ کی بنیاد پر فیصلے، کاروبار کے مساوی مواقع، تعلیم، صحت اور باہر ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات۔ اگر کسی نظام میں یہ مسائل حل نہ ہو ں تووہ نظام نہیں چل سکتا اور یہ مسائل ہائبرڈ نظام میں بالکل حل نہیں ہوسکتے، تو پاکستان بھی اس تجربے سے پرہیز کرے، یہ ملک مزید پانچ سال عدم استحکام کا متحمل کسی صورت میں نہیں ہوسکتا ہے۔