فلسطین کی تاریخ، مختصر جائزہ (تیسرا اور آخری حصہ)

حصہ اول پڑھنے کیلئے کلک کریں: فلسطین کی تاریخ، مختصر جائزہ

حصہ دوم پڑھنے کیلئے کلک کریں: فلسطین کی تاریخ، مختصر جائزہ

…..اس الیکشن کے بعد فلسطین کے اندر تنظیم آزادی فلسطین اور حماس کے درمیان سول وار شروع  ہوئی اور فلسطین دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ غزہ پر حماس نے کنٹرول حاصل کر لیا اور مغربی کنارے پرتنطیم آزادی فلسطین نے کنٹرول حاصل کیا۔

تاریخ کے مطابق حماس کا آج بھی غزہ پر کنٹرول حاصل ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اسرائیل اور فلسطین کا نقشہ سامنے رکھ کر اس کو اچھی طرح ذہین نشین کرلیں کہ ان دو  ریاستوں  میں فرق کیا ہے اور کہاں کہاں پر کس کس کی حکومت ہے؟یہ تو ہم کو اچھی طرح پتہ ہے کہ فلسطین مشرق وسطیٰ میں واقع ہے اور اسرائیل نے زبردستی قبضہ کر کے اپنی ریاست قائم کی ہے۔فلسطین کے شمال مشرق میں لبنان واقع ہے، مشرق میں مصر واقع ہے جس کی سرحد غزہ سے ملتی ہے اور مغرب کی طرف فلسطین کےساتھ جارڈن اور بحرہ روم کا سمندر واقع ہے۔ اس نقشے کے مطابق فلسطین دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک حصے کو مغربی کنارہ کہتے ہیں جس کی سرحدمغرب میں جارڈن کے ساتھ ملتی ہے  اور دوسرے حصے کوغزہ کہتے ہیں جس کی سرحد  مصر کے ساتھ ملتی ہے لیکن مصر کے ساتھ اسی لائن میں اسرائیل کی سرحد بھی ملتی ہے ۔ نقشے کے مطابق اسرائیل بیچ میں قائم ہے اور  کناروں پر ٹکڑوں میں فلسطین  ہے ۔ بدقسمتی سے جو علاقے فلسطین پر مشتمل ہیں ان علاقوں میں اسرائیل  بڑی تعداد اور کالونی کی شکل میں آباد ہےاوران پر اسرائیلی قانون لا گو ہے نہ کہ فلسطین کا قانون اور اس آبادی کو غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ اور کئی ممالک نے اس آبادی کو یو این پلان اور زمینی حقائق کے خلاف قرار دیا ہیں۔اب فلسطین میں مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کا کنڑول حاصل ہے جس کا  سیاسی پارٹی کانام فتح ہے اور غزہ مکمل طور پر حماس کے کنٹرول میں ہےاور آج  کی جنگ بھی غزہ میں جاری ہے ۔ اہم بات اس میں یہ ہے کہ اسرائیل کو سپورٹ کرنے والے ممالک نے جیسا کہ امریکہ، برطانیہ، یورپ،کنیڈا ،جاپان اور بہت سے دیگر ممالک نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا  ہیں کیونکہ اس تنظیم اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔لیکن دوسری طرف بہت سے ممالک  جیسے کہ برازیل، مصر، ایران ،چائنا، ناروے ، قطر، روس ، شام اور ترکیہ حماس کو جہادی تنظیم سمجھتے ہیں ۔ حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو حماس نے کسی اور ملک پر حملہ نہیں کیا ہے جب  بھی حملہ کیا ہے تو اسرائیل پر کیا ہے اور اسرائیل نے دوسروں کی سر زمین پر زبردستی قبضہ جما  رکھا ہے۔ ہر اس شخص کو مذہب اور قانون اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی سر زمین کی حفاظت کریں ۔ حماس کی شکل میں ردعمل تو آنا تھا کیونکہ اس کی سرزمین دوسروں کے ہاتھ میں ہے اور اس کے آنے والی نسلوں کے پاس نہ زمین ہے اورنہ روشن مستقبل ۔ اگر کسی جانور کو بار بار پتھر مارو گے تو وہ بھی مجبور ہوکر آپ پر حملہ کرے گا۔موجدہ جنگ کے بارے میں پوری دنیا کے اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر  لمحہ بہ لمحہ خبریں آتی رہتی ہیں۔ 7اکتوبر صبح سویرے غزہ کی جانب اسرائیل پر بیک وقت 5سے 7 ہزار مزائل داغے جاتے ہیں اور بعد میں رپورٹ آتی ہے جس کے مطابق ایک ہزار چار سو اسرائیلی ہلاک ہوتے ہیں۔ اس جنگ کو حماس  آپریشن آل اقصہ کا نام دیتا ہے  اور اسرائیل جنگ کا اعلان کرتے وقت اس جنگ کو آپریشن ائرن سورڈز کا نام دیتا ہے۔اس جنگ  میں اب تک جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں یا تباہ یاں ہوئی ہیں  اس میں سب سے زیادہ نقصان فلسطین کا ہوا ہے ۔ فلسطین کے لوگ 75 سال سے  جنگی ماحول  میں سفر کرتے آرہے ہیں  لیکن آج تک وہ سب بے یار و مدد گار ہیں ۔ دنیا کے مختلف ملکوں سے مزاحمتی بیانات آتےہیں  مگر عملی طور پر  وہ بے بس نظرآرہے ہیں ۔کچھ تو بلکل حماس کی حمایت کررہے ہیں اور کہتے  ہیں کہ حماس بھی اسرائیل کی طرح آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے مگر بہت سے  ایسے ممالک  بھی ہیں جو حماس کو دہشت گرد  کہتے ہیں اور اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔ اس لسٹ میں اگر دیکھا جائے تو امریکہ بلکل غیر جانب دار نہیں ہے بلکہ اسرائیل کی سپورٹ کے ساتھ ساتھ مدد بھی کررہا ہے ۔ایک بہت مشہور کہاوت ہے کہ ہر انسان کو اپنے مفادات عزیز ہیں اور اپنے مفادات میں لوگ انسانیت بھول جاتے ہیں۔پرشیا کے جنرل کارل وان کلاز وٹذ  کا قول ہے کہ ہر جنگ کے پیچھے سیاست ضرور ہوتی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے پیچھے سیاست کون کررہا ہے ۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی ممالک سوا ایران باقی سب صرف اور صرف مذمتی بیانات تک محدود  ہیں ۔ اگر کوئی بیان دیتا بھی ہے تو اس میں صرف مذمت اور درمیانی راستہ نکالنے کی بات  کرتاہے۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو صرف امریکہ مالی ، دفاعی اور عالمی سطح پر اسرائیل کی حمایت کرتا پھر رہا ہے حالانکہ اسرائیل ہر لحاظ سے حماس سےمضبوط ہے۔ امریکہ نے یہاں تک اسرائیل کے لیے کیا کہ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کی اسرائیل اور حماس کی جنگ کے حوالے سے قرار داد کو ویٹو کردیا ہے۔ یہاں پر امریکہ کو انسانیت نظر نہیں آتی ہے اور یوکرین، ایران، افغانستان، شام اور ویت نام میں انسانیت کی خلاف ورزیاں امریکہ  کوبہت جلد نظرآ جاتی ہے ۔ اسرائیل کے حوالے سے قائد اعظم کاموقف بہت واضح ہےکہ فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد وطن کے بغیر یہودی ریاست کو تسلیم کرنا پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہے، جس پر آج تک پاکستان قائم ہے اور آگے بھی قائم رہنا چاہئے۔