آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا

آج اسرائیل کے حملے کو لگ بھگ ایک ماہ ہوچکا ہے حالات مزید خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں۔ اسری اور مریم اپنی بوڑھی ماہ کے ساتھ اسکول میں بنے کیمپ میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

تیرہ اکتوبر کے حملے میں انکے گھر تباہ ہو گئے وہ رات بھی کس قدر کربناک تھی۔ ہر گھر میں آیت کریمہ اور استغفار کے ورد جاری تھے ہر زبان پر یہی صدا تھی کہ یارب دشمن کو نیست و نابود کردے۔ جب کہ انکا ازلی دشمن اسرائیل اس بار انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی ٹھان چکا ہے ۔ ہتھیار اور اسلحہ کا استعمال انکے لئے کوئی نئی بات نہ تھی۔ مگر اس بار مسلسل بم گرائے جارہے تھے ہر گھر میں خوف و ہراس کے بادل منڈلا رہے تھے دشمن کئی روز سے آگ و خون کی ہولی کھیل رہا تھا۔ اور اپنے پیاروں کے غم میں ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ایک بار پھر میزائل کے زوردار حملے میں فاسفورس بم گرائے گئے پورے علاقے میں آگ لگ چکی تھی۔ مریم اور اسری کا گھر مکمل جل چکا تھا مگر وہ کسی طرح تینوں اپنی جان بچاکر گھر سے نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اسی دن سے اب تک وہ اسی کیمپ میں زندگی گزار رہی ہیں۔

نہ جانے کیوں آج انہیں اپنے بھائی شدت سے یاد آرہے تھے جو 7 اکتوبر سے چند روز قبل دشمن کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے مشن پر کئی نوجوانوں کے ساتھ نکل چکے تھے۔ بوڑھی ماں نے بھی ان کے کرب کو آج شدت سے محسوس کیا ویسے تو وہ دونوں بہنیں پورے دن کیمپ میں ہر کسی کے کام آتیں کھانا بنانے سے لیکر چھوٹے بڑے کام ملکر انجام دیئے جاتے تاکہ اشیاء ضرورت کو زیادہ روز تک چلایا جاسکے۔ جب کبھی اسری اور مریم ہمت ہار دیتیں تب ان کی بوڑھی ماں کے پاس اسکا ایک ہی حل ہوتا کہ وہ انہیں 1947 سے اب تک کے واقعات سناتیں انکے دل میں اس جذبے کو جوان رکھنے کیلئے کہ یہ زمین ہماری ہے اور یہ دہشت گرد صہیونی کی اوقات کتے کے برابر ہے جو کبھی پناہ کی بھیک مانگتے ہماری سرزمین میں داخل ہوئے دنیا میں کسی نے ان کتوں کو ہڈی نہیں دی مگر ہمارے چند لالچی فلسطینیوں نے انکو اپنی زمینیں بیچیں اور پھر یہ ہمارے اوپر قابض ہوگئے۔ دنیا کی مائیں اپنے بچوں کے مستقبل کے سنہرے خواب سجاتی ہیں مگر یہ دلیر فلسطینی مائیں اپنے بچوں کے دلوں میں شوق شہادت کا جذبہ پیدا کرتی ہیں ان کے دل میں ایک ہی جذبے کو جوان رکھتی ہیں، مسجد اقصیٰ کی صہیونی تسلط سے رہائی و فلسطین کی آزادی اور دشمن کی تباہی۔

آج دونوں بہنیں اپنی والدہ کی گود میں سر رکھے ماضی کی داستانیں سنتی رہیں یہ داستانیں نہیں وہ تلخ حقیقتیں تھیں جو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انہیں اٹھا کھڑا کرنے کے لیے کارگر ثابت ہوئیں۔ کیمپ میں بچوں اور عورتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ان بچوں کے دلوں اسی جذبے کو جوان رکھنا تھا اسی عزم کو جو اب تک انکا کل سرمایہ تھا اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے ٹکرانے کا ہنر جو بچپن سے انہیں سکھایا جاتا تھا وہی جذبہ تھا اور وہ بچے۔  جنہیں ان جذبوں کو ایندھن بنا کر اپنی روح میں اتارنا تھا کہ جس سےدشمن کا سب کچھ جل کر خاک میں مل جائے۔ اس کیمپ میں ان دونوں نے اپنی ہم عمر لڑکیوں اور بچوں کے ساتھ ملکر ایک سرنگ کھودی اور اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے اپنی نسل کے اندر کھیل ہی کھیل میں وہ کچھ انڈیلا۔ اس حقیقت سے باخبر ہوتے ہوئے بھی کہ چند لمحوں میں ایک بموں کا کلسٹر اس کیمپ کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔ مگر یہی تو وہ جذبہ ہے جو پون صدی سے انہیں جینے کا حوصلہ دے رہا ہے جو اس بارود زدہ ماحول کو گل و گلزار بنارہا ہے۔ آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا اور یہی جذبہ عالم اسلام کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ یہ جو مسلم اقوام تہذیب حاضر کا ایندھن بن چکی ہیں۔ فلسطینیوں کا سا ایماں پیدا کرلیں تو اس وقت حالات کے چکر سے نکل کر اپنے کھوئے ہوئے وقار کو حاصل کر سکتی ہیں۔ مریم اور اسری کی زندگی میں واپسی اور بچوں کے ساتھ کھیل میں مگن دیکھ کر انکی والدہ نے وہ اطمینان محسوس کیا کہ آج نہیں تو کل وہ مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے ناپاک وجود سے پاک کر کے رہینگے۔ ان شاءاللہ