نجی سیکٹر کی من مانیاں اور معیشت

آنے والے الیکشن میں ہمیشہ کی طرح سب کے منشور بہت ہی عوام دوست اور ایسا لگے گا کہ عوام کی  ہمدرد ہر پارٹی ہے۔ اگر ہم اپنی یادداشت پر زور دیں تو کئی سالوں سے ہر پارٹی نے بہت ہی زبردست منشورپیش کیے جس میں عوام کو غربت سے نجات اور عوام کی خوشحالی کیلئے سارے انتظامات کی باتیں ہوتی ہیں۔تو پھر آج تک عوام کے حالات بہتر کیوں نہیں ہوئے؟ آج بھی ہم مہنگائی پر روتے ہیں اور پچھلے کئی سالوں سے ہم اسی مہنگائی کا رونا روتے رہے ہیں۔

پاکستان نےبے شک ترقی کی ہے بہترین سڑکیں بنا کر اور مغربی عادات کو اپنا کر مگر جہاں زندگی کا رہنے کیلئے ضرورت کے سامان کی بات کریں تو کل بھی اسے حاصل کرنا مشکل تھا اور آج بھی ہے۔ اگر ہم موجودہ تین ماہ کی  نگران حکومت کی بات کریں  ۔ اگر کرنے پر آئیں تو  کیا نہیں کرسکتے یہ حکمران، کئی سالوں کے افغانی جو پاکستان کی معیشت پر ایک بوجھ تھے، ان کو تین ماہ کے اندر واپس بھیجنے کا انتظام اور کئی سالوں کی افغان بارڈر پر اسمگلنگ کو تین ماہ کے اندر روک دیا گیا۔

معیشت کے ساتھ کھیلنے والے ڈالر کے سٹہ بازوں کو صرف چند دنوں کے اندر روکا گیا اور روپے کی قدر میں بے تحاشہ اضافہ چند دنوں میں دکھائی بھی دیا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ڈالر کی کمی کے بارے میں پچھلے تین سالوں میں کوئی روکنے والا نہیں تھا اور ڈالر اسٹاک مارکیٹ کی طرح سٹے کا شکار ہوتا گیا۔ اسٹاک مارکیٹ ہو یا ڈالر کا سٹہ، قانونی طریقے سے اسے استعمال کرکے چند لوگ امیر سے امیر تر ہوتے ہوئے نظر آئے ۔

پاکستان میں آج بھی ملکی معیشت کو تباہ کرنے میں چند لوگ ملوث ہیں جو اپنے پیسے اور اثر رسوخ کے ذریعے سے ہر غیر قانونی کام کو قانونی شکل دے کر اپنے مفادات کیلئے کام کرتے ہیں۔ آج انہی لوگوں کی وجہ سے مہنگائی عروج پر ہے۔ کیا نگران حکومت کے بعد کوئی ایسی حکومت آئے گی جو مستقل طور پر ایسی پالیسیاں بنائے جن سے غیر قانونی طریقے سے ملکی معیشت کو کوئی بھی انسان نقصان نہ پہنچا سکے۔

کیا پاکستان بھی چین کی طرح اپنی معیشت کو دنیا میں منوا سکتا ہے؟ پاکستان وہ ملک تھا جو چین اور سعودی عرب کی مالی طور پر مدد کیا کرتا تھا۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ آج اس کی یہ حالت ہوچکی ہے۔ اگر ہم چین کی ترقی پر نظر ڈالیں تو چین نے سب سے پہلے ان منافع خور لوگوں کو ختم کیا جو چین کی معیشت کو غیر قانونی طور پر نقصان پہنچانے اور قانون کی مدد سے اپنے غیر قانونی معاملات کو قانونی شکل دیتے تھے۔

چین نے نجی شعبے کو لگام دینے کیلئے حکومتی ادارے بنانا شروع کردئیے اور ان حکومتی اداروں کو اتنا مضبوط بنایا کہ پرائیویٹ سیکٹر ان کا مقابلہ کرنے کیلئے دن رات کام کرنےلگا۔ کسی پرائیویٹ سیکٹر کی ہمت نہ ہوئی کہ حکومت کو بلیک میل کرکے اپنی من مانی قیمتیں عوام سے وصول کرسکے۔ آج چین کی معیشت کی کامیابی کی وجہ یہی ہے ۔ 70 فیصد چین میں سرکاری ادارے اور کارخانے موجود ہیں جو پرائیویٹ سیکٹر کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی من مانی قیمتیں وصول نہ کرے۔

انہی 70 فیصد کارخانوں کی وجہ سے چین کی جانب سے دنیا بھر میں کم سے کم قیمت پر اپنی اشیا بیچی جاتی ہیں۔  پاکستان میں حکومتی اداروں کو تباہ کیا گیا، تاکہ پرائیویٹ سیکٹر اپنی من مانی قیمتیں عوام سے وصول کرتا رہے اور سیاسی لوگوں کے اثرو رسوخ سے انہوں نے ہمیشہ سے قیمتیں بڑھانے میں ان کی مدد کی ہے۔

پاکستان میں آ ج 70فیصد بجلی بنانے والی کمپنیاں جنہیں ہم آئی پی پی کہتے ہیں ملک کی زیادہ تر بجلی بناتی ہیں اورپاکستانی عوام کو سب سےمہنگی بجلی دی جاتی ہے۔ اگر ہم کے الیکٹرک کی مثال دیں تو کے الیکٹرک جب حکومت کے پاس تھی تو 30 فیصد لائن لاسز ہوا کرتے تھے اور 170 فیصد بجلی کی قیمتوں میں کمی تھی۔آج جبکہ کے الیکٹرک کے لائن لاسز صرف 15 فیصد رہ گئے ہیں، اس کے باوجود اگر ہم بجلی کا ٹیرف دیکھیں تو بجلی کی قیمت تقریباً کئی گنا بڑھ چکی ہے جبکہ بیشتر عوام کی تنخواہ بجلی کے بل کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے۔

ان بجلی گھروں نے ہمیشہ  حکومت کو بلیک میل کیا اور اپنی من مانی قیمت کے علاوہ حکومت سے گیس سستے داموں لے کر بجلی بنائی مگر قیمت ہمیشہ فرنس آئل کی خریداری کے مطابق لی۔ بجلی ہی کی نہیں،  بلکہ میں مثال سیمنٹ  اور اسٹیل انڈسٹری کی بھی دوں گا جس کی وجہ سے آج تعمیراتی کاموں میں بے تحاشہ پیسہ لگتا ہے اورا س کا بوجھ ملک کی معیشت پر پڑتا ہے۔

اسٹیل مل کو سیاسی طور پر ہمیشہ سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تاکہ اسٹیل مل بند ہوجائے اور پرائیویٹ اسٹیل فیکٹریاں اپنی من مانی قیمتیں وصول کرکے پاکستان کی معیشت کو کھوکھلا کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ پچھلے 10 سال کی پرائیویٹ سیکٹر کی اسٹیل مل کی بیلنس شیٹ اٹھا کر دیکھیں تو بے تحاشہ منافع میں نظر آئیں گی اور جن اداروں کی بیلنس شیٹ پر منافع نظر نہیں آتا، وہ بھی پرائیویٹ آڈیٹرزکے ذریعے ٹیکس چوری کیلئے اپنی ناجائز بیلنس شیٹ کو خوبصورتی سے جائز بناتے ہیں۔

گزشتہ 10 سال میں اسٹیل کی قیمتیں بڑھتی نظر آئیں اور قومی اسٹیل مل کا خاتمہ ہوگیا۔ اسی طرح اب یہ پرائیویٹ سیکٹر چاہتا ہے کہ پی آئی اے جیسا ادارہ ختم کیا جائے جسے کئی سالوں سے نقصان میں چلایا جارہا ہے، تاکہ یہ ادارہ بند ہو جائے اور پرائیویٹ ائیر لائنز عوام سے اپنی من مانی قیمتیں وصول کریں۔ یہی نہیں، بلکہ پاکستان کی فارن ایکسچینج بھی باہر کے ممالک کی ائیر لائنز پاکستان سے لے جائیں اور پھر پاکستان کے فارن ریزروز پر اس کے اثرات نظر آنے لگیں گے۔

پاکستان کی تمام پرائیویٹ سیکٹر اپنے اپنے شعبوں کے اندر کارٹیل بناتے ہیں اور مہنگائی کا جواز اس طرح پیش کرتے ہیں، جس طرح اسٹاک مارکیٹ والے مارکیٹ کو اوپر لے جانے کیلئے خوبصورت منظر کشی کرتے ہیں اور اسی مارکیٹ کو نیچے لانے کیلئے بھی خوبصورت بہانے اور خبریں تلاش کرکے حکومت اور عوام تک پہنچاتے ہیں۔ مہنگائی کا یہ دور پرائیویٹ سیکٹر سے شروع ہوا جس میں ہم نے دیکھا کہ گاڑی کی قیمتوں کو لاکھوں سے کروڑوں میں لایا گیا۔ اسی طرح  گھر کی قیمتوں کو لاکھوں سے کروڑوں تک پہنچانے والے پاکستان کے سیمنٹ ، اسٹیل اور دیگر انڈسٹری جو گھر بنانے سے تعلق رکھتی ہیں، انہوں نے بے تحاشہ مہنگائی کی۔

اب اگر ہم خوراک کی طرف آئیں تو زراعت کی تباہ کاری میں  بھی پرائیویٹ سیکٹر نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ کھاد کی قیمتوں کو بے تحاشہ مہنگا کیا اور باہر سے مہنگے ترین بیج منگوائے، جس کی وجہ سے کاشتکار وں کیلئے مشکلات پیدا ہوئیں۔ کل کا ہاری جو بہت ہی مناسب قیمت پر ٹریکٹر خریدتا تھا، آج ٹریکٹر خریدنا تو دور کی بات، ٹریکٹر کے اندر ڈیزل ڈالنے کیلئے اسے مشکلات پیش آرہی ہیں، کیونکہ ہاری کو پیسے کم ملتے ہیں اور  اس ہاری سے سامان خریدنے والے بیوپاری، ٹرانسپورٹرز بے تحاشہ منافع کماتے ہیں۔

اس کی وجہ صرف اور صرف کسانوں کو آسانی سے ان کی ضرورت کی چیزیں نہ ملنا ہے کیونکہ ہمارا کسان تعلیم یافتہ نہیں ہے۔ ہمار ے بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں نے ہمیشہ کسان کو تعلیم سے دور رکھا تاکہ وہ اپنی زمینداری کرتے رہیں۔ پاکستان میں گزشتہ 70سال میں ہر شعبے کے اندر چند لوگ ہیں جو امیر سے امیر تر ہوئے ۔ ملک میں امیروں کی تعداد بڑھتی نظر نہیں آئی بلکہ مڈل کلاس کے لو گ غربت کا شکار ہوتے ہوتے اب غریب طبقے میں شامل ہوچکے ہیں۔

آج اسی پرائیویٹ سیکٹر نے تعلیم اتنی مہنگی کردی ہے کہ ہر وہ انسان جو اپنی اولاد کو پڑھانا چاہتا ہے، اسے بہت ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اگر حکومتی اسکولوں کو کامیابی سے چلایا جاتا تو آج یہ پرائیویٹ سیکٹر کے ادارے اپنی من مانی قیمتیں عوام سے وصول نہیں کرسکتےتھے۔ عوام کیلئے جتنے بھی ادارے بنائے گئے، انہیں ایک ایک کرکے تباہ کیا گیا، چاہے وہ ہسپتال ہو، اسکول ہو، کارخانے ہوں، یہاں تک کہ عوام کی تفریح گاہوں کو بھی تباہ کرکے ان کا وہ حال کیا گیا کہ عوام ہمیشہ سے پریشانی کا شکار رہے ہیں۔

اگر حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان میں خوشحالی آئے تو پرائیویٹ سیکٹر کی من مانیاں اور غیر قانونی طریقوں کو قانونی بنانے والے لوگوں کو روکے اور زیادہ سے زیادہ حکومتی ادارے بنائے تاکہ کوئی بھی پرائیویٹ سیکٹر کا ادارہ اپنی من مانی قیمتیں وصول نہ کرسکے۔ یہ وہی پرائیویٹ سیکٹر ہے جو سیاسی لوگوں کو فنڈنگ کرتا ہے تاکہ وہ لوگ جب حکومت کا حصہ بنیں تو ان کے غیر قانونی اقدامات کو قانونی شکل دی جاسکے۔ آج ان پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں نے میڈیا کے ذریعے پاکستان کے عوام کو پاکستان کےاداروں سے بھی بد دل کردیا ہے، اور عوام ہی کے ذریعے وہ اپنی سوچ  کوفروغ دےرہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہےکہ بار بار کیوں کہا جاتا ہے کہ ریلوے کو پرائیویٹ کردیں؟ پی آئی اے کو پرائیویٹ کردیں۔

ایسا کیوں کہا جاتا ہے کہ یہ کام حکومت کا نہیں ہے۔ حکومت نہیں چلا سکتی۔  اگر حکومت ادارے نہیں چلا سکتی تو اسے ملک چلانے کا بھی کوئی حق نہیں۔ جو حکومت آپ سے کہے کہ وہ پی آئی اے اور اسٹیل مل جیسے ادارے نہیں چلا سکتی، اسے چاہئے کہ وہ مستعفی ہوجائے کیونکہ حکومت کا کام ملک چلانا ہے اور ملک اس وقت چلتا ہے جب ایسے قانون بنائے جائیں جو حکومتی ادارے اور پرائیویٹ سیکٹر کامیابی کے ساتھ کام کرے۔

اگر سرکاری ادارے اپنے پیسے نہیں کماتے تو حکومت چلانے کیلئے وہ عوام سے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ اگر یہی حکومتی ادارے مثلاً پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے، تقریباً موجودہ 200 حکومتی ادارے کامیابی سے کام کریں تو عوام پر ٹیکس کا بوجھ نہیں آئے گا اور حکومت اپنے ہی پیسوں سے ملکی معاملات چلا رہی ہوگی۔ جس ملک میں آپ ٹیکس کی کمی دیکھتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں حکومتی ادارے اپنا کام بخوبی کر رہے ہیں۔

پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس بھی عوام سے لیا جاتا ہے جو ضرورت کی مصنوعات کی قیمتوں پر لگایا جاتا ہے، اور سب سے کم ترین لوگ جو ٹیکس دیتے ہیں، وہ کاروباری لوگ ہیں۔ اگر ہم بالواسطہ ٹیکس کی بات کریں تو 70 فیصد اور اگر براہِ راست ٹیکس کی بات کی جائے تو اس کی شرح 25 فیصد ہے۔ یوں 70فیصد ٹیکس عام آدمی دے رہا ہے جس سے ملک چلتا ہے۔ اگر گورنمنٹ کے اداروں کو بند کردیا جائے تو 70 فیصد سے بھی زیادہ ٹیکس عام آدمی کو دینا ہوگا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت سارے پاکستان کو چلانے کیلئے تیار ہے، جس میں ہر قسم کے لوگوں کی ضرورت کے استعمال کیلئے چیزیں میسر کرنے کو تیار ہے، مگر وہ اپنے ہی اداروں کو نہیں چلا سکتی۔ حکومتی ادارے اگر صحیح ہوجائیں تو ہمیں سستا پانی، سستی سیمنٹ، سستا اسٹیل، سستا گھر، سستی دوائیاں، سستا علاج معالجہ، سستی تعلیم  آج بھی مل سکتی ہے۔