تنہائی کا احساس

ڈھلتی عمر کے ساتھ اسے اپنی تنہائی کا احساس بھی بڑھتا جا رہا تھا اور اسے اپنی غلطیوں کا بھی، اس نے پلنگ پر لیٹی آپا کو دیکھا جھریوں میں آٹا ہوا انکا چہرہ جو کب کا اپنی اصل رنگت اور نقش کھو چکا تھا اب تو شام کے سائے بھی ڈھلتے جارہے تھے۔ اپنی آخری سانسوں کی مانند، نہ جانے انکا کمزور ساتھ کب تک میرا ساتھ دے گا۔ اداسی کی لہر اس کے اندر تک پہنچ کر اسکی آنکھوں میں آگئی۔ آپا تو اب نیند کی گولیاں کھا کر اپنی تنہائیوں کے غم بھلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن اس کے لئے ابھی یہ اداس شاموں کا سفر جاری رہے گا۔ وہ کمرے سے نکل کر باہر آگئیں۔ تمام دن کی اب وتاب کے بعد تھک کر سورج بھی غروب چکا تھا اسکی جوانی کی طرح صرف اس پاس ہلکی سی سرخی رہ گئی تھی شاید وہ بھی کچھ لمحوں میں غائب ہو جائے گی، اپنی جوانی کو یاد کرکے

وہ ماضی میں کہیں دور کھو گئیں، جدید تراش خراش کا لباس گلے میں لہراتا ہوا برائے نام دوپٹہ، سہیلیوں کے ساتھ بازاروں کے چکر، جوانی کی مستی میں مدہوش اسے کسی بات کی فکر نہ تھی، اماں اگر سمجھاتی تو وہ ایک کان سے سنتی دوسرے سے نکال لیتں، اس سے بڑی بہن خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہر آنے والے رشتے کو ٹھکرادیتی۔

بھائی جان ! ریحانہ اس ریشماں کو سمجھا، ماجد اچھا لڑکا ہے ٹھیک ٹھاک کما لیتا ہے اسکے اوپر کوئی ذمہ داری بھی نہیں ہے، کیا ساجدہ کی طرح یہ بھی، اسی طرح بیٹھی رہے گی۔ گیا وقت دوبارہ نہیں آتا۔ آخر بہنوں کے کہنے سمجھانے سے ریشماں تو شادی کرنے پر راضی ہوگئی، لیکن چند دنوں میں اسکا موڈ خراب ہو گیا کہ ماجد کی کمائی کم ہے گھر صرف دو کمروں کا ہے اکثر وہ میاں سے لڑ جھگڑ کر میکے جاتی میکے میں اب تھا ہی کون ، امان کے انتقال کے بعد ساجدہ ہی اس بڑے سے گھر میں ایک نوکرانی کے ساتھ رہ رہی تھی وہ یہاں بھی آتی تو ساجدہ کو طعنے دیتی کی اس بڑے گھر کی اکیلے مالکن بن کر ٹھاٹھ کی زندگی گزار رہی ہو اور مجھے اس کے پلے باندھ دیا ہے۔ ہر وہ وقت اس گنوار کی نصیحتیں سنتی رہتی ہوں۔

بھائی تو ویسے ہی سب الگ الگ اپنی زندگی گزار رہے تھے اور یہی ساجدہ بھی چاہتی تھی۔ بچے کی پیدائش کے بعد تو سب بہن بھائیوں نے سمجھا کہ اب یہ صحیح طور پر اپنا گھر بسانے کی کوشش کرے گی لیکن اب تو اس نے مسلسل اپنا ڈیرہ میکے میں جما لیا اس طرح ماجد کے ساتھ کچی ڈور میں بندھا ہوا یہ رشتہ بھی ٹوٹ گیا، لیکن ریشماں کو اس رشتے کے ٹوٹنے کا کوئی غم نہ تھا بلکہ وہ بیٹا بھی اس نے ماجد کو تھما دیا کہ نہ مجھے تم سے کبھی محبت تھی اور نہ مجھے اس بچے سے محبت ہے میں اب آزاد ہوں اپنی مرضی کی زندگی جیوں گی۔ اب تو ریشماں کو کھلی آزادی مل گئی تھی اس پاس سے ایک دو لڑکوں نے ریشماں سےدوستی کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا لیکن شادی کا نام سن کر پیچھے ہٹ گئے۔

بھائیوں اور بہنوں نے نئے سرے سے ان دونوں کے گھر بسانے کی کوشش کی لیکن اب جو رشتے ابھی رہے تھے وہ عمر رسیدہ اور جوان بچوں کے باپوں کے لیے ہوتےلہذا دونوں بہنوں نے سختی سے سب کو منع کردیا کہ وہ اب اسی طرح زندگی گزاریں گی۔ آخر سب نے ان دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ سب بھائی ملکر دونوں کی کفالت کے لئے رقم پہنچا رہے تھے جس سے وہ عیش کی زندگی گزار رہیں تھیں۔

وقت نے کسے پکڑ کر رکھا ہے گزرتا گیا تو جوانی بھی ڈھلتی گئی، اب سوائے سناٹے کے اس پاس کچھ نہ تھا، جوانی کے دن یاد آئے تو اس نے اپنی آنکھوں سے ڈھلکتے ہوئے انسووں کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن آج تو جیسے یہ بے قابو ہو گئے تھے۔ اس نے دھندلائی آنکھوں سے باہر دیکھا چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا جس نے پورے ماحول کو اپنے اندر سمیٹا ہوا تھا بالکل اسکی زندگی کی طرح۔