دین اسلام کی مکمل پیروی

نبیل ! زینت اب تم ملازمت چھوڑ دو مجھے اچھی ملازمت مل گئی ہے،

زینت ! ماشاءاللہ لیکن اب ہمیں انعم کا بھی اسکول میں داخلہ کروانا ہے ماشاءاللہ بچوں کی تعلیم گھر کے اخراجات، اور بھی بہت سے خرچ ہیں، میرا اس وقت ملازمت چھوڑنا صحیح نہیں،

نبیل (زور سے ہنستے ہوئے ) اس کی اب تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں، اوپر کی کمائی بہت ہے اس نوکری میں، تم عیش کرو گی،

زینت ! (حیرانی سے ) یہ تم کیا کہہ رہے ہو بہت افسوس ہوا تمہاری بات سن کر، اب ہمارے بچے حرام کمائی پر پلے اور بڑھیں گے یہ رزق حلال کی برکت تھی کہ کم امدنی کے باوجود ہم پیٹ بھر کر کھانا کھا رہے تھے اور برکت تھی تینوں بچوں کی پڑھائی کا سلسلہ بھی جاری ہے،

نبیل ! (طنز سے) نوکری سے انے کے بعد تم دو شفٹوں میں ٹیوشن بھی پڑھا رہی ہو،

زینت ! (نبیل کی بات کاٹتے ہوئے ) لیکن میں نے کبھی گھر اور اپ سب کو نظر انداز نہیں کیا،

نبیل ! اور اپنا خیال کیا؟

زینت ! رزق حلال کا خیال رکھنا دراصل اپنا خیال رکھنا ہی ہے

جسکا پتہ اپ کو اگے چل کر ہوگا،

صرف اس دنیاوی زندگی کی نہیں بلکہ آخری ابدی زندگی کا خیال رکھنا پہلی ترجیح ہے۔ بندے کے دل میں اللہ کا خوف ہونا چاہیے۔

میڈم دلشاد ! مس زینب اس بچی کی امتحانی کاپی کو دوبارہ دیکھ لو یہ ہمارے دوسرے کیمپس کی ٹیچر صبیحہ کی بیٹی ہے ہر میٹنگ میں اکر ہماری خامیاں گنواتی ہے زرا مزا چکھاو اسے اپنے مضمون میں اسے فیل کردو۔

مس زینب ! میڈم میں نے مس صبیحہ کی بیٹی انعم کی امتحانی کاپی دو مرتبہ جانچ لی ہے لیکن نمبر کم کرنے کی کہیں گنجائش نہیں ہے ویسے ہی پریلیمز میں ہم سختی سے پیپر چیک کرتے ہیں تاکہ بچے فائنل میں مزید محنت کریں ۔ میڈم کو مس زینب کی بات پر عصہ ایا لیکن پھر بات کو سنبھالتے ہوئے مس نورین سے کہا تمہیں اپنے پیپر میں اس کو فیل کرنا ہے۔

مس عالیہ ! مس زینب اپ نے میڈم کو منع کردیا ہے صحیح نہیں کیا اپنے، تمہارا کیا جاتا دس نمبر کہیں نہ کہیں کم کر دیتی کونسا فائنل امتحان تھا اب تمہاری پروموشن وغیرہ پر اس کا یقینا اثر پڑے گا۔

مس زینت ! میرا دل مطمئن ہے، میں نے غلط نہیں کیا میں میڈم کے سامنے جوابدہ ہونے سے نہیں بلکہ اپنے رب کے سامنے جوابدہ ہونے سے ڈرتی ہوں۔

راشدہ ! عارف لوگ کیا کہیں گے، عمیر ہمارا اکلوتابیٹا اتنی سادگی سے شادی؟ میرے بڑے ارمان تھے ڈھولکی ، مہندی، ڈانس وغیرہ، پورا ایک ہفتہ تو ڈھولکی ہوگی ، سارے رشتہ دار اور دوست احباب سب شریک ہونگے بڑا مزا ائے گا اس طرح دیکھنا لوگ مرعوب ہونگے ہماری بیٹی امبر کے لئے بہترین رشتہ ائے گا ہمیں اسکی بھی فکر کرنی چاہیے۔

عارف ! ہم دنیا کو دکھانے کے لئے لھو ولھب سرگرمیوں میں پیسہ اڑائیں جس سے اللہ بھی ناراض ہوگا ہاں شادی میں جو جائز رسوم نکاح اور ولیمہ ہیں ہم اس کو بہترین طریقے سے انجام دیں گے۔ ان شاءاللہ ۔

بشیر صاحب صوم صلواۃ کے پابند اور بظاہر بڑے نیک اطوار کی شخصیت کے مالک تھے، جس محفل میں شریک ہوتے اپنی بہترین گفتگو سے لوگوں کو متاثر ضرور کرتے بڑے سے کاروبار کے مالک بھی تھے لیکن اپنے کاروبار میں امدنی بڑھانے کے لئے نئے نئے گر استعمال کرتے، کبھی ناقص مال کو شامل کرتے کبھی اشیاء کی قیمتیں بڑھادیتے پھر خریداروں کے سامنے چھوٹی قسمیں بھی کھاتے، بیٹا جوان ہوا (اسے باپ نے دینی تعلیم بھی دلوائی تھی) تو اسے باپ کے کاروبار کے گھپلوں کے بارے میں معلوم ہوا اس نے باپ کو سمجھانے کی کوشش کی، جس پر باپ الٹا بیٹے پر ناراض ہوا۔

مذکورہ بالا واقعات اور کردار ہماری سوسائٹی میں عام نظر اتے ہیں، ان میں اکثر صوم صلواۃ کے پابند افراد بھی شامل ہوتے ہیں لیکن انکے دوسرے اعمال میں دین نظر نہیں آتایعنی معاملات زندگی میں دین کہاں سے اگیا،

کیا دین صرف نماز روزے حج وغیرہ تک ہی محدود ہے? احادیث مبارکہ میں زندگی کے تمام معاملات کے بارے میں واضح تعلیمات موجود ہیں، جیسا کہ منافق اور دو قسم کے طرز عمل کے بارے میں اپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ، قیامت کے دن، اللہ کی نظر میں دورخے شخص سے بد تر کوئی نہ ہوگا(ترمذی)اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، حلال بھی کھلا ہوا ہے اور حرام بھی ظاہر ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ پس جو شخص ان چیزوں کو چھوڑے جن کے گناہ ہونے یا نہ ہونے میں شبہ ہے۔ وہ ان چیزوں کو تو ضروری ہی چھوڑ دے گا جن کا گناہ ہونا ظاہر ہے۔ لیکن جو شخص شبہ کی چیزوں کے کرنے کی جرات کرے گا تو قریب ہے کہ وہ ان گناہوں میں بھی مبتلا ہو جائے جو بالکل واضح طور پر گناہ ہیں۔

یعنی تعلیمات اسلامی کے ذریعے زندگی کا مکمل سفر گزارنے کا لائحہ عمل ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے لیکن ہم میں سے اکثریت اس طرف سے عافل ہے ایسا لائحہ عمل جس کا رزلٹ ہمیں آخرت میں تھمایا جائے گا یہ مذکورہ بالا واقعات فرضی نہیں بلکہ حقیقت پرمبنی ہیں جو اپنے چاروں طرف نظر آئے یقینا آپ کی نظروں سے بھی گزریں ہونگے اس لحاظ سے ہمیں اپنا محاسبہ بھی کرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ہمارا شمار بھی ان میں نہیں ہورہا ہے اگر خدانخواستہ ایسا ہے تو اپنی اصلاح کرنا لازمی ہے ورنہ بہت بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔