پرائیویٹائزیشن سے ملک کی تباہی

پرائیویٹائزیشن سے مہنگائی میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اُس کا اثر معیشت پر براہ راست پڑتا ہے، پاکستان میں جب بھی پرائیویٹائزیشن ہوئی ہے پاکستان کی معیشت پر اس کا گہرا اثر پڑا ہے، آج پاکستان میں کنسٹرکشن انڈسٹری اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ عام آدمی گھر خریدنے کے لئے سوچ بھی نہیں سکتا، اس کی بنیادی وجہ پرائیویٹائزیشن ہے۔

پاکستان میں سیمنٹ کی 22 پرائیویٹ کمپنیاں ہیں جو ملک کو سیمنٹ فراہم کررہی ہیں اور اپنی من مانی قیمتیں یہ 22 لوگ مل کر طے کرتے ہیں، سیمنٹ کی قیمتیں آج جو اتنی زیادہ بڑھ چکی ہیں پرائیویٹ کمپنیوں کی جگہ سرکاری کمپنیاں ہوتیں تو حالات مختلف ہوتے، سرکاری ادارے جو چیزیں بناتے ہیں اس سے اُن چیزوں کی قیمت کا صحیح تعین ہوجاتا ہے، حالانکہ اُن اداروں کو سیاسی طور پر استعمال بھی کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ ادارے نقصان میں آجاتے ہیں۔ ہم صرف سیمنٹ انڈسٹری کی ہی بات نہیں کریں گے بلکہ بہت سی ایسی انڈسٹریز ہیں جہاں حکومت نے سرمایہ کاری نہیں کی اور پرائیویٹ سیکٹر نے من مانی قیمتیں طے کرلیں، جس کی وجہ سے صنعت کار امیر سے امیر تر ہوتے دکھائی دیئے، جس کی مثال گاڑیوں کی انڈسٹری، دوائیوں کی انڈسٹری، بجلی بنانے والی کمپنیاں اور دیگر اہم کمپنیاں ہیں جن کی آج اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔

اب جو سرکاری حکومتی کمپنیاں باقی رہ گئی ہیں آئی ایم ایف کا ارادہ ہے کہ ان کو پرائیویٹائز کردیا جائے تاکہ مہنگائی میں مزید اضافہ کردیا جائے، آج اگر اسٹیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے تو اُس کی اہم وجہ اسٹیل ملز کو بند کیا جانا ہے جبکہ پاکستان میں سی پیک کی تعمیر سے لے کر آگے آنے والے پاکستان کے جتنے بھی تعمیراتی کام ہوں گے ان میں اسٹیل زیادہ استعمال ہوگا، اب اسٹیل اور سیمنٹ کی قیمتیں ساری پرائیویٹ آرگنائزیشنز طے کرتی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کا ہر تعمیراتی پراجیکٹ بے تحاشہ مہنگا ہوجاتا ہے۔

کل اگر ہم پی آئی اے جیسے ادارے بھی پرائیویٹائز کردیں گے تو ایئر لائنز اپنی منہ مانگی قیمتیں وصول کرنا شروع کردیں گی اور پاکستانیوں کے لئے باہر ملک جانا یا تجارت کرنا مشکل سے مشکل تر ہوجائے گا، اسی طرح بہترین ادارے جیسے کہ او جی ڈی سی اور دیگر ادارے جس سے پاکستان کا بہتر مستقبل ہوسکتا ہے اگر انہیں بھی ہم فروخت کردیں گے تو پھر ہم پاکستان کی ترقی کیسے کر پائیں گے؟

پاکستان میں 70سالوں سے عوام یہ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی لوگوں کے اخراجات کے باعث حکومت عوام پر ٹیکس لگا کر پاکستان کا بجٹ بناتی ہے، اگر سرکاری ادارے کمانے لگ جائیں تو عوام پر ٹیکس کا بوجھ کم ہوجائے گا، کیونکہ جب حکومتی ادارے پیسے کماتے ہیں تو ساری آمدنی پاکستان کے بجٹ میں شامل ہوجاتی ہے، اسی لئے سوچنے والی بات ہے کہ اگر ہم سرکاری اداروں کو بند کردیں گے یا پرائیویٹائز کردیں گے تو نقصان عوام کا ہوگا۔

آج پاکستان کے عوام پر ٹیکسز کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے کیونکہ سرکاری اداروں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا،تاکہ اُنہیں باہر ممالک کے لوگ خرید لیں یا پاکستان کے بڑے سرمایہ دار خرید کر اپنی من مانی قیمتیں وصول کرکے عوام اور ملک کو غریب کردیں، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ پرائیویٹائزیشن بہت ضروری ہےکیونکہ حکومت ادارے نہیں چلا سکتی، لیکن میرا یہ کہنا ہے کہ اگر حکمران پورے پاکستان کو چلاسکتے ہیں تو اداروں کو کیوں نہیں؟ بات صرف یہ ہے کہ اگر حکمران چاہیں تو تمام حکومتی اداروں کو عوام کی سہولت کے لئے استعمال کرسکتے ہیں اور مناسب قیمتوں کا تعین کرسکتے ہیں جو عوام کے لئے اور ادارے کے لئے فائدے مند ہوں۔

آج اگر ہم صرف پرائیویٹائزیشن کی طرف چلے جاتے ہیں تو پھر کل ہماری آنے والی نسلوں کو بڑے سرمایہ داروں کی وجہ سے ہر چیز مہنگی ملے گی اور حکومت کو چلانے کا واحد ذریعہ عوام سے بے تحاشہ ٹیکس وصول کرنا ہوگا، آج ہماری حکومت جن اداروں کی وجہ سے چل رہی ہے ان میں حکومتی ادارے ہیں اور عوام کا ٹیکس۔حکومتی اداروں کو اگر نکال دیں گے تو سارا بوجھ صرف عوام پڑیگا۔

پرائیویٹ اداروں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے واحد ذریعہ ہے کہ اُن کے مقابلے میں حکومتی ادارے ہوں جو وہی کام کریں جو پرائیویٹ ادارے کررہے ہیں مگر غیر سیاسی طور پر اُن حکومتی اداروں کو کام کرنا پڑے گا اور منافع کو مناسب رکھتے ہوئے ایک مثال بنا کر پرائیویٹ اداروں کے سامنے پیش کرنی ہوگی تاکہ پرائیویٹ ادارے اپنی من مانی نہ کرسکیں۔

حصہ
mm
ندیم مولوی ملک کے معروف ماہر معیشت ہیں،وہ ایم ایم سیکورٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹربھی ہیں،ندیم مولوی کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔