اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَ الْفَتْحُ

بیت المقدس جس نے کئی پیغمبر اپنی گود میں پالے۔ مسجد اقصیٰ جہاں اِمام الانبیاء محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام پیغمبروں کی امامت کا فریضہ انجام دیا۔ وہ قبلہ اوّل جس طرف رُخ کرکے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی برس نماز ادا کی۔ وہ فلسطین جہاں خلیفہ دوم امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اونٹ پر اپنا خادم بٹھا کر فلسطین کو فتح کیا۔ وہ القدس جس کی محکومیت نے صلاح الدین ایوبی کے چہرے سے مسکراہٹ چھین لی تھی۔

وہ بیت المقدس جس کی حفاظت ترکوں نے ہر چیز سے بڑھ کر کی۔ جہاں صہیونی عثمانی سلطانوں کو چند گز زمین کے لئے کروڑوں ڈالر دینے پر رضا مند تھے۔ لیکن پھر مسلم نوجوانوں کو جدیدیت کا جھانسہ دے کرخلافتِ عثمانیہ کو اپنی مکروہ چالوں سے نابود کرنے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے بل بوتے پر مسلم ممالک کے نام نہاد مسلم حکمرانوں کو سرمائے سے خریدنے کے بعد چاروں طرف سے مسلمانوں پر یلغار کرنے کے بعد اسرائیل اور اس کے حامیوں نے طاقت کے نشے میں چور شام لبنان لیبیا عراق افغانستان کو نرم لقمہ سمجھ لیا۔پھر اُفق نے منظر دیکھا کہ اللہ اکبر کی صدائیں ان کی شکست کا علان کرتی نظر آئیں۔ جہاد فی سبیل اللہ کی عملی تصویروں نے ان کی زندگیوں کے رنگ پھیکے کردیئے۔

سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جہاد کو دہشتگردی کا لبادہ اوڑھایا گیا۔ جہاد کے نتیجے میں ہونے والی راحت سے مزین آزمائشوں امن و سلامتی کی امیدوں دین الحق کے کٹھن مرحلوں اور دُشوار راستوں کی مصیبتوں کو مسلمانوں کی بد بختی بتایا گیا۔ لیکن اچھرہ کے بزرگ کی جہاد فی الاسلام نے مسلمانوں پر حقیقت دو اور دو چار کی طرح واضح کردی آج اس کی فکر کے علمبرداروں اور شیخ احمد یاسین کے تربیت یافتہ جوانوں نے پچیس سال سے غزہ پر قابض آئے روز نہتے فلسطینیوں پر حالت رکوع وسجود میں ان پر بمباری کرنے والے خود کو نا قابل تسخیر سمجھنے والوں پر حماس کے شہزادوں نے فضاءِ بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی کے مصداق حماس کے پروانے فضا سے پیراشوٹ کے ذریعے حماس کے غوطہ خور سمندر کے راستے حماس موٹر گلائیڈرز شیروں نے کٹھن چٹانوں پر ایسا جاندار حملہ کیا کہ اسرائیل کا مضبوط دفاعی سسٹم ہو یا چوکند ایجینسیاں ہو یا پھر کالے گورے دلال ہوں سب بوکھلا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ بعید نہیں کہ اللہ نے ان کو بے خبر رکھا۔ صبح شام ٹاک شوز میں بیٹھ کر مسلمانوں کو اخلاقیات کا درس دینے والے رنگین مزاج تجزیہ نگار بھی اس ویڈیو کو محفوظ کرلیں۔ جس میں حماس کمانڈر یہودی عورت کو گھیر نے والے لوگو سے کہے رہا ہے کہ اس کو ڈھانپ دو اس کو کچھ نا کہو یہ ہماری تہذیب نہیں ہے اور تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی،

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا

عالم کفر کو یاد دہانی کروائی کہ جب بھی بیت المقدس فتح ہوا بھلے ہی عمر بن خطاب ہو یا کرد شہزادہ جہاد فی سبیل اللہ کے ہی نتیجے میں ہوا۔ اب وقت آپہنچا کہ تمام ممالک کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے کہ آیا وہ مضبوط معاشی چھتوں کے نیچے جمع ہونگے یا پھر جہاد فی سبیل اللہ کے دامن میں اُمت مسلمہ پر قابض حاکم تمہارے ساتھ ہو نا ہو اُمت مسلمہ حماس اور فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور آج سوشل میڈیا پر وائرل سید منور حسن کے وہ جملے حالات پر صادق آرہے ہیں کہ یہ جتنی جہادی تحریکیں ہیں۔ ان تحریکوں نے اُمت مسلمہ کا بھرم باقی رکھا ہوا ہے۔

آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا

آگ کرسکتی ہیں انداز گلستاں پیدا

سو فتح کا وقت قریب آگیا۔

اپنی گود میں پالے ہیں پیغمبر اس نے.

مومن پر واجب ہے اقصی کا تحفظ کرنا.

کیا یہود کا زنداں کانپ رہا ہے،

گونج رہی ہیں تکبیریں۔

اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی،

اور توڑ رہے ہیں زنجیریں،

دیواروں کے نیچے آکر ،

یوں جمع ہوئے زندانی،

سینوں میں طلاطم بجلی کا،

آنکھوں میں جھلکتی شمشیریں۔