عالم اسلام خاموش تماشائی

اے ارض فلسطین! اے انبیاء کی سرزمین!

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے

نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

چودہ سو سال پہلے میرے اور آپ کے رب نے اپنی آخری الہامی کتاب میں اعلان کردیا تھا (انما المومنون اخوۃ ) بے شک مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں، پھر اپنے آخری نبی و رسول ﷺ کے ذریعے خبر دار بھی کر دیا مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس پر نہ ظلم کرتا ہے، نہ اسے چھوڑ دیتا ہے۔ مزید فرمایا مومنوں کی مثال آپس کے لطف ومحبت اور ہمددری میں ایسی ہے جیسے ایک جسم، جب اسکے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے قرار ہو کر جاگتا رہتا ہے اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ فرمان نبوی ﷺ کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح جسم کے تمام اعضاء ایک دوسرے سے متصل ہیں، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہیں، اسی طرح مسلمان جن کا خدا ایک، رسول ایک اور قبلہ ایک ہے انہیں بھی ایک دوسرے کے دکھ درد اور رنج و راحت میں شریک ہونا چاہیے۔ مگر مقام افسوس ہے که آج پیغمبروں کی سرزمین فلسطین، بے کس اور بے بس مسلمانوں کے لہو سے رنگین ہے۔ بیت المقدس، توحید کا دوسرا بڑا مرکز ہمارا قبلہ اوّل کل انبیاء کی سجدہ گاہ یہود و نصاریٰ کے قبضے میں ہے وہ اسے مسمار کرنے کے درپے ہیں۔ نہتے فلسطینی مسلمان انکے اس ناپاک عزم کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے وہ اس میدان میں تنہا کیوں ہیں؟ پورا عالم اسلام خاموش تماشائی کیوں ہے۔ دس عرب ریاستوں کے درمیان میں نکتہ کے برابر یہودی ریاست، قرآن کی زبان میں ایک لعنت زدہ قوم جو حکمٍ ربٌی کے مطابق امریکی اور برطانوی امداد کے سہارے زندہ ہے۔

اگر کفر ملتِ واحدہ ہے تو مسلمان ملتِ واحدہ کیوں نہیں؟ ایک کلمہ کے ماننے والے منتشر و پریشان ہیں۔ رنگ ونسل اور فرقہ ومسلک کی حدوں میں قید ہیں تیل کی دولت اور ایٹمی قوت کے مالک ہیں لیکن عالمٍ کفر سے خائف ہیں۔ کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، عراقی، افغانی اور شامی مسلمان پریشان حال ہیں۔ برما روہنگیا کے مسلمان در بدر ہیں۔ وجہ صرف ایک ہے مسلم ممالک میں اتفاق واتحاد کی کمی۔ غور کیا جائے تو پوری مسلم اُمہ میں اس وقت عوام اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کیلئےتیارہیں لیکن حکمران طبقہ امداد باہمی کے جذبہ سے نابلد دکھائی دیتا ہے۔ پورے خطۂ عرب میں انہی حکمرانوں کی نا اہلی اور بزدلی 1948 میں فلسطین کی تقسیم کا باعث بنی۔ 14 مئی 1948 کو آزاداسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں آیا جو آج تک فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وبربریت کے پہاڑ تو ڑ ہی ہے اور مشرقٍ وسطیٰ میں قیام امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ فلسطین تو کیا؟ پورے عرب کو بھی آج تک حقیقی آزادی نصیب نہیں۔ وہ اقتصادی طور پر امریکہ و اسرائیل کے ہی غلام ہیں۔ کیونکہ دنیا کی معیشت پر ان صیہونیوں کا قبضہ ہے شاعر مشرق علامہ اقبال نے درست فرمایا تھا۔

حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی

ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہےگاز

رمز شناسِ اُمت بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 8 دسمبر 1947 کو امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین کو خط ارسال کر کے مطالبہ کیا کہ فلسطینی ریاست کوتقسیم نہ کیا جائے ورنہ تاریخ اقوام عالم کو فلسطینیوں کے ساتھ کئے گئے جرائم پر کبھی معاف نہیں کرے گی۔ قائد اعظم اورمسلم لیگ ہمیشہ فلسطین کی آزادی کیلئے آواز اُٹھاتے رہے حتی کہ 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان منظور کی گئی تواس تاریخی موقع پربھی فلسطین کے ساتھ یک جہتی کی قرارداد منظورکی گئی۔ اگست 1948 کواپنے پیغام عید میں قائد اعظم نے فرمایا ! تمام اسلامی ملکوں کو عید مبارک ہو، میرا عید کا پیغام سوائے دوستی اور بھائی چارے کے اور کیا ہوسکتا ہے، ہم سب یکساں طور پر خطرناک اور کٹھن دور سے گزر رہے ہیں سیاسی اقتدار کا جوڈرامہ فلسطین، انڈونیشیا اورکشمیرمیں کھیلا جارہا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونا چاہیے۔

ہم اپنے اسلامی اتحاد کے ذریعے ہی دنیا کے مشورہ خانوں میں اپنی آواز کی قوت محسوس کروا سکتے ہیں۔ دوسری جانب شاعر مشرق علامہ اقبال کو تقسیم فلسطین کے تصور نے مسلسل پریشان کئے رکھا۔ اُنکے خیال میں یہودی ریاست کا قیام مشرق کے دروازے پر مغربی سامراج کے فوجی اڈے کی تعمیر کا شاخسانہ ہے۔ وہ اسے عالم اسلام کے قلب میں ایک ناسور سے تعبیر کرتے تھے۔ قائد اعظم کی واضح اور بالیقین بصیرت کے پیش نظر فلسطینی قربانیوں سے پاکستانی عوام کا تعلق پختہ تر ہے اور ان کی تربیت و رہنمائی کی بدولت کسی پاکستانی حکران کو آج تک جرأت نہیں ہوسکی کہ اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کا جرم کر سکے۔ تاریخ ہمیں یہ بھی خبر دیتی ہے کہ قائد اعظم نے فروری 1946ء میں نیویارک ٹائمز کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا۔ ہم فلسطینیوں کی مدد کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں” صحافی نے جب قائد سے کسی بھی حد تک کی وضاحت پوچھی تو جواب دیا ” ہم جوبھی کر سکے ” پھر تھوڑی دیر رک کر فرمایا ” ضرورت پڑنے پر ہم فوجی طاقت کا بھی استعمال کریں گے” ۔ حیرت ہوتی ہے وہ مرد مومن جو ابھی ایک مسلم مملکت کے قیام کیلئے کوشاں ہے، نہ اس کے پاس مالی قوت ہےنہ عسکری طاقت، بیت المقدس کی آزادی کی جنگ میں تعاون کا اس قدر بلند عزم رکھتا ہے تو آج دنیائے اسلام کے حکمران کیوں عالم کفر سے خوفزدہ ہیں؟ کہاں گئی انکی غیرت ایمانی ؟ بھول گئے سب وہ درس اخوت جو شاعرمشرق نے دیا تھا۔

اخوت اسکو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں

تو ہندوستان کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے

آج اگر تمام مسلمان ممالک اسرائیل سے ہرقسم کا تجارتی لین دین بند کردیں تو دنوں میں اس کی معیشت تباہ ہو جائے پھر انکے پاس فلسطینیوں کی تباہی کیلئے اسلحہ کہاں سے آئے؟ نہ صرف یہ بلکہ عہدِفاروقی کی طرح بیت المقدس جنگ کے بغیر مسلمانوں کے قبضہ میں آجائے۔ لیکن یہ اتناآسان کام نہیں۔ اسکے لئے عرق ریزی کی ضرورت ہے مسلم حکومتوں کو ہر عالمی فورم پرمسئلہ فلسطین پر اپنے مؤقف کی وضاحت کرنا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر مؤثر طریقے سے بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ پر اپنا حق ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ صیہونیت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنا ہے۔ اس طرح غیر مسلم ممالک میں فلسطینی مسلمانوں کے حق میں رائے ہموار کرنا ہے۔ اسکے ساتھ اپنے بچوں کو بھی مسئلہ فلسطین کی حقانیت سے آگاہ رکھنا ہے۔ یہودی بچہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی خیبر کی شکست کا بدلہ لینے کی تیاری کر رہا ہے تو ہمارے بچے بھی اسکا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہیں۔ میری عزیز بہنو ! آئیے اپنے آپکو اس فلسطینی خاتون کی جگہ تصور کریں جو آسمان کی جانب ہاتھ بلند کر کے ملبے پر کھڑی پکار رہی ہے میں فلسطین کی رہائشی ہوں مگر میں اس دنیا کی بھی تو شہری ہوں۔ کیا ہمیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں؟ میرے تین معصوم بچوں کا کیا قصور تھا کہ انکے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا، کیا دنیاکے کسی حصے میں ایسے انسان ہیں جو ہم مظلوموں کو انصاف دے سکیں؟ ہم انہیں انصاف تو نہیں دے سکتے لیکن ان کی اشک شوئی تو کر سکتے ہیں۔ سردست انکی ہرممکن اخلاقی ومالی مددکریں۔ دوبارہ آباد کاری میں اُنکی معاونت کریں۔ اُنکے حق میں عالمی ضمیر کو بیدار کریں۔ گویا کہ صرف دعا سے کام نہیں چلے گا دوا کی بھی ضرورت ہے۔

غارت گری اہل ستم بھی کوئی دیکھے

گلشن میں کوئی پھول نہ غنچہ نہ کلی ہے

کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں

کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے