ہماری ترجیحات

بیگم نجمہ! لیکن مسزعارف اپنے تو ہاں کی تھی کہ ہر لحاظ سے آپ اس رشتے سے مطمئن ہیں پھراچانک آپ کا ارادہ بدل گیا ہے۔

مسز عارف! مجھے تو یہ رشتہ اب بھی پسند ہے اور ماشاءاللہ آپکا بیٹا بڑا لائق اور نیک بھی ہے لیکن،

نجمہ بیگم، لیکن کیا؟

مسزعارف! اصل میں میری بیٹی اس رشتہ پر اس لئے راضی تھی کہ اس وقت آپ کا بیٹا ملک سے باہر تھا اب آپ نے بتایا کہ وہ واپس پاکستان آرہا ہے تو میری بیٹی نے منع کر دیا ہے۔

عالیہ! سعدیہ باجی میری تو خواہش ہے کہ میری بیٹی آپ کی بہو بنے مجھے آپ بہت اچھی لگتی ہیں آپ بھی  کینیڈا میں بہو تلاش کر رہیں ہیں، مجھے نورین نے بتایا تو میں نے  کہا کہ سعدیہ تم یہ رشتہ کینیڈا کی وجہ سے  پسند کر رہی ہو، جبکہ تم نے تو میرے بیٹے کو دیکھا تک نہیں کہ وہ کیسا ہے۔ کیا  کرتا ہے اس کی تعلیم  اس کی ملازمت وغیرہ کے بارے میں تم کچھ نہیں جانتی۔

عالیہ! کیا میرے لئے یہ کافی نہیں کہ وہ آپکا بیٹا اور کینیڈا کا رہائشی ہے،

سیرت، مما مجھے یہ رشتہ  پسند نہیں ہے آپ انہیں منع کر دیں۔ مما، لیکن بیٹا کیا خرابی ہے  اس رشتے میں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اچھی ملازمت ہے اور کیا چاہیے تمہیں؟

سیرت! اس کی کزن مجھے بتا رہی تھی کہ  لڑکا اور اسکے گھر والے بہو کو بھی عبایہ پہنائیں گے، مجھے یہ عبایہ اوراسکارف وغیرہ بالکل پسند نہیں اور آپ کو بھی تو پسند نہیں پھر میرے لئے آپ کو یہی رشتہ ملا میری کزن وغیرہ کیا کہیں گی۔

مذکورہ بالا قسم کی بہت سی تصویریں میرے آس پاس نظر  آئیں تو آپ کے سامنے کچھ  پیش کیں، کچھ زمانہ  پہلے  تک بھی والدین اپنی بچیوں کے رشتوں کے لئے لڑکے کی شرافت نیک نامی اور اعلیٰ تعلیم کو ترجیح  دیتے تھے۔

جبکہ فی زمانہ اکثر والدین اور لڑکیوں کی سوچ میں تبدیلی آگئی ہے لڑکے کی شرافت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے بجائے اسکی ظاہری پوزیشن اور بیرون ممالک ملازمت کو خاص طور پر  ترجیح دی جارہی ہے، جبکہ بحیثیت  مسلمان ہماری پہلی ترجیح لڑکے کا شریف اور نیک اور اعلی تعلیم یافتہ ہونا چاہئے، ان خصوصیات کی بدولت وہ ایک اچھا جیون ساتھی بن سکتا ہے۔

آج ہماری ان ہی ترجیحات کی وجہ طلاق اور خلع کے واقعات میں اضافہ بھی نظر آرہا ہے، اس سلسلے میں والدین کی تربیت بڑی اہمیت کی حامل ہے وہ ہی بچپن سے بچیوں کی تربیت میں اس بارے میں بھی خیال رکھ سکتے ہیں ۔