آپﷺبحیثیت معلم

انما بعثت معلما،،،،،مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے۔

معلمی پیغمبری صفت ہے تدریس کے بہترین اسلوب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بتا دیے عام فہم اندازاور مثالوں کے ذریعے آپ بیان فرماتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدھی لکیریں کھینچی اور فرمایا سیدھا راستہ ہے اور اللہ کی طرف جاتا ہے اس طرح آپ نے کچھ اور لکیریں کھینچی اور فرمایا یہ شیطان کے راستے ہیں۔

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  علم کی ترویج پر خصوصی توجہ دیتے تھے مسجد نبوی میں صفہ کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے صفہ کے معنی چبوترا یا تھڑا کے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم حاصل کرنے والے افراد یہاں دن رات قیام فرماتے اور ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا تھا آپ ﷺ ان کے طعام کا خاص خیال رکھتے اور ان کی تربیت پر توجہ دیتے۔

جنگ بدر کے قیدیوں سےآپﷺ نےکہا کہ انصار کے بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں۔ آپ ﷺ کی یہ دور اندیشی کام آئی اور یہ کہ مدینہ کی خارجی پالیسی مرتب کرتے وقت آپ ﷺ نے جب فرمانرواؤں کو خط لکھے تو پڑھے لکھے افراد کی ضرورت تھی۔

ہارون رشیدنے ایک دفعہ اپنے درباریوں سے پوچھا بتاؤ اس دنیا میں سب سے زیادہ کس کی عزت ہے۔ “کسی نے کہا بادشاہ کی کسی نے کہا وزیر کی،  ہرشخص اپنے علم تجربے اور ذہانت کے مطابق بات کرتا رہا مگر کوئی بھی بادشاہ کو مطمئن نہ کر سکا آخر بادشاہ نے کہا استاد کی، میں نے استاد کے جوتے اٹھانے کے لیے شہزادوں کو دوڑتے دیکھا ہے.

دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر

آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر

ابن انشاء جب چین گئے تو تمام طالب علم سر جھکا کر ادب سے دو رویا کھڑے ہو گئے کہ استاد محترم ہمارے درمیان موجود ہیں۔

اشفاق احمد کو ایک دفعہ عدالت جانا پڑا تو عدالت میں جج نے کھڑے ہو کر آپ کا استقبال کیا اور کمرہ عدالت میں اعلان کیا کہ آج عدالت میں استاد موجود ہے۔

استاد بادشاہ نہیں ہوتا مگر بادشاہ بنا دیتا ہے۔

والدین زمین پر لاتے ہیں جب کہ استاد بلندی تک لے جانے کا باعث ہوتے ہیں۔

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے۔

استاد محترم کو سلام