مہنگائی اور مجبور عوام

ملک کے معاشی حالات روز بہ روز بگڑتے جا رہے ہیں مہنگائی نے طوفان مچایا ہوا ہے، ٹی وی کے ہر چینل پہ سیاسی پارٹیوں کے کارکنان ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے اور خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ہر پارٹی اپنی نظر میں بے گناہ ہےجبکہ سارا قصور مخالف پارٹی کاہے، سیاست دانوں کی اس نورا کُشتی میں جو پس رہے ہیں وہ عام لوگ ہیں  ۔جن کی آواز اتنی نہیں ہے کہ حکمرانوں کے ایوانوں کو لرزا سکے، اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو سہتے جا رہے ہیں ان کے بازووں میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ظالموں کو گریبان سے پکڑ سکیں۔ اپنی نا گفتہ بہ حالت پر چپ رہنے والے اور غاصبوں کو اپنا حکمران بنانے والے “مجبور، بے حیثیت”عوام۔  جن کی حالت دگر گوں ہے۔

مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے، اشیائے خوردونوش دسترس سے باہر ہیں۔ پیٹرول سونے سے بھی مہنگا، ساتھ میں بجلی غائب، گیس میسر نہیں، آٹا اور چاول دسترس سے باہر، چینی ناپید، پھلوں کا نام جان بوجھ کہ نہیں گنوا رہی کیوں کہ وہ اسباب تعیش میں شامل ہو گئے ہیں۔ گاڑیوں کا کرایہ، بجلی گیس اور پانی کا بل دیکھ کر سر چکرا جاتا ہے۔ ایسے میں غریب آدمی خود کشی نہ کرے، قتل میں ملوث نہ ہو ڈکیتی سے گریز کرے، چوری کرنے اور چھینا جھپٹی سے خود کو روکے رکھے تو کیسے؟

جب بنیادی ضروریات سے ہی انسان کو محروم کر دیا جائے، بچوں کو بھوک سے بلکتا ہوا دیکھنا پڑے، اپنے پیاروں کے علاج اور دوائیوں کے پیسے نا ہونے کی وجہ سے انہیں موت کے منہ میں جاتے ہوئے بے بسی سےدیکھنا پڑ ے، تو انسان شرافت کا جامہ اتار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے قیمتی سامان چوری ہوتے تھے اب کھانے پینے کی اشیاء اور عام ضرورت کی چیزیں چوری ہو رہی ہیں۔ دیہاڑی دار طبقہ اور کم آمدنی والے افراد سب سے زیادہ مشکل میں ہے۔ پیسے کی قدر میں کمی آنے کی وجہ سے دیہاڑی ایک وقت کا چولہا گرم نہیں کر پا رہی، پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر لوگ چوری کرنے لگ گئے ہیں۔ بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو اسکولوں سے اٹھا لیا ہے کیونکہ گھر کے اخراجات ہی پورے نہیں ہو رہے تو بچوں کی فیس اور آمد و رفت کا کرایہ کیسے برداشت کریں۔ دوائیں سوفیصد مہنگی ہونے کی وجہ سے ہزاروں افراد علاج سے محروم ہو گئے ہیں۔ عوام پہ کبھی پیٹرول بم گرتا ہے اور کبھی انہیں بجلی کے جھٹکے سہنا پڑتے ہیں اور سیاسی گرو جھوٹی تسلیوں سے انہیں بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

سب کو معلوم ہے کہ معیشت برباد ہو گئی ہے، بیرونی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں ملک کی پوری آبادی سوائے (سیاستدانوں، چند جرنیلوں اور بیوروکریٹس کے)رُل رہی ہے، استطاعت سے زیادہ معاشی بوجھ پڑنے کی وجہ سے خود کشی کےواقعات میں اضافہ ہو گیا ہے”کسی” کو بھی احساس نہیں کہ قرضوں کی شرائط پوری کرنے میں کتنی زندگیاں قربان کرنا پڑیں گی۔ حکمرانوں کی عیاشیوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا، ان کے محلات کی رنگریزی عوام کے خون سے کی جارہی ہے۔ معاشی حالات کی تنگی نے لوگوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا ہے اب بھکاری پیسے نہیں مانگتے بلکہ چاول، آٹا، گھی یا چینی کا تقاضا کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ روپے کی قیمت دو کوڑی کی بھی نہیں رہی۔ ایسا نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے زمین فصل اگانے سے انکاری ہے بلکہ یہ مہنگائی کی کارستانی ہے کہ سب کچھ ملک میں پیدا ہونے کے باوجود یہ نعمتیں عام آدمی کو میسر نہیں۔ اس کی زندگی کی راحتیں کہیں کھو گئی ہیں، وہ ان ساری نعمتوں کو دیکھتا ہے انہیں کھانے کا متمنی ہے لیکن ان سے لطف اندوز ہونا اسے نصیب نہیں۔

بیماریوں سے لڑنے کے لیے غذا اور دوا کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے ملک میں دونوں کا فقدان ہے۔ بھوک اور بیماری تکلیف دہ صورت اختیار کر جائے تو زندگی کے مقابلے میں موت باعث راحت نظر آتی ہے اس وجہ سے زندگی ارزان ہو گئی ہے، حالات کے ستائے ہوئے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتے ہیں ورنہ مہنگائی ہی انہیں زندہ درگور کرنے کے لیے کافی ہے۔