سلطنتِ سلجوق اور سلجق

سلجوقیوں کا مورث سلجوق یا سلجک تھا۔ اس نے اس خاندان میں سب سے پہلے ناموری حاصل کی۔اس نے بلاد اسلام میں داخل ہو کر اپنی سلطنت قائم کی۔ نسلاً اس خاندان کا تعلق اتراک قنق کی شاخ غز سے تھا۔یہ نو خیز قوت ترکمان شمال کی غیر متمدن علاقوں جنوب کی طرف بڑھے۔صدی کی پہلی چوتھائی میں انہوں نے سیاسی قوت حاصل کی۔ دوسری چوتھائی تخت شاہی پر جلوا گر ہوئے۔ تیسری چوتھائی میں پورے مشرقی علاقوں کے مالک بن بیٹھے۔

سلجوقی دور تاریخ اسلام کی عظمت و بزرگی کے ایک نہایت اہم دور کی تاریخ ہے۔ عباسی دور کی سیاسی زوال کے بعد جس سلطنت نے ممالک اسلامیہ کے بیشتر حصہ کا ایک مرکز پر جمع کیا۔ سلجوقی سلطنت کی سرحد چین سے لے کر سواحل بحرِ ابیض تک ، اور عدن سے لے کر خوارزم و بخارا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ سلجوقیوں نے تمام مسلمان قوموں کو ایک بار پھر ایک کر دیا۔ ایشیا کے اس بہترین خطہ کو جو اس اس وقت نہ صرف سیاسی انتشار و پرواگندگی کی حالت سے نکال کر پھر اس قابل بنا دیا کہ وہ انسانی تمدن کی تعمیر میں اپنے حصہ کا کام پورا کرے۔ سلاجقہ کی تاریخ اسلامی دور کی عہد زرین تاریخ ہے۔ تاریخ عالم میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔سلاجقہ کی ابتداء پانچویں صدی میں ہوتی ہے اور ساتویں صدی کے آخر تک جاتی ہے۔ اس طرح کم و پیش تین سو برس کی اس مدت سے سلاجقہ کی قوت بہت ہی نشیب و فراز سے گزرتی ہے۔ اس کا بہتری زمانہ طغرل بک، الپ ارسلان، ملک شاہ، بر کیارق، محمد اورسجر کا زمانہ ہے۔ ان کی تاریخ کچھ اس طرح ہے کہ اسلامی سرحدوں سے متصل ترکوں کے بہت سے قبائل بڑے بڑے علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔یہ قبائل مسلمان علاقوں سے تجارت کرتے رہتے تھے۔ اسی وجہ سے یہ مسلمان بھی ہو جاتے تھے اور ان میں کچھ اسلامی علاقوں میں آباد ہو جاتے تھے۔

مہدی عباسی کے زمانے میں پہلی مرتبہ ان کی ایک بڑی جماعت نے دریائے سیحوں کے مشرقی کنارے پر اسلامی علاقے میں آکر اسلام قبول کیا۔معتصم نے انہی ترکمانوں سے وہی فوج مرتب کی جو ایک صدی تک دولت عباسیہ میں سیاہ و سپیدکی مالک رہی۔ان ہی غز ترکمانوں میں سے ایک گروہ اپنے سردار سلجوق کے ساتھ آکر بلاد اسلامیہ میں آباد ہوا۔سلجق کی تین بیٹے تھے ارسلان،میکائیل اور موسیٰ۔سلجوق کے بعد اس کی قوم دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک گروہ نے اپنا سردار طغرل بک اور چغری بک دائود کو بنایا اور دوسرے نے ارسلان بن سلجوق کو۔ ایک زمانے میں سلجوقی دس ہزار کی تعداد میں خراسان میں آ گئے۔ غزنوی بادشاہ ابو الفضل سوری سے درخواست کی کہ ہم آپ کے مطیع ہیں ہمیں خراسان میں آباد رہنے دیا جائے۔ سلطنت میں مشورہ ہوا کچھ نے یہ بات مان لی کچھ نے خدشہ ظاہر کیا۔ آخر میں ان کو خراسان سے نکالنے کا فیصلہ ہوا۔ غزنویوں نے اپنا پندرہ ہزار کا لشکر دے کر دس ہزار سلجوقیوں کو خراسان سے نکالنے کے کیے نیشا پور سے روانہ کیا گیا۔ جب فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو سلجوقی ایلجی حملہ آور فوج کو پیغام بھیجا کہ ہم آپ کے غلام اور مطیع ہیں۔ ہم آپ سے لڑائی نہیں کرنا چاہتے۔ ہیں صرف آپ کے علاقہ میں رہنے کی اجازت چاہیے۔ مگر حملہ آور فوج والے نہ مانے اور جنگ شروع ہو گئی۔ پہلے سلجوقیوں کو شکست ہوئی اور ان کی کئی سو سپاہی مارے گئے۔ اس کے بعد جنگ کا پانسہ بدلا اورغزنوی فوج کو شکست فاش ہوئی۔ سلجوقیوں نے حملہ آور فوج کا سارا ساز و سامان لوٹ لیا۔ اس طرح سلجوقیوں کو خراسان میں بزرو قوت امن نصیب ہوا۔طغرل نے خراسان کی بادشاہی کا اعلان کیا۔ چند سال کے اندر بلخ، خوارززم، ضرجان،طبرستان،الجبال، ہمدان، دینور، حلوان، رے اور اصفہان ایک ایک کر کے طغرل بک کے تابع ہو گئے۔ اس بعد اس نے بغدارد پر بھی قبضہ کر لیا۔پھر جیجون سے فرات تک اپنی سلطنت وسیع کر لی۔ ایک طغرل بک سلجوقی غز قبلیہ کا تھا، اور ایک الطغرل کائی قبیلہ کا تھا۔ سلطنت سلاجقہ بہت نشیب وفراز سے گزری۔طغرل بک، ارسلان اور ملک شاہ کا زمانہ بہترین زمانہ تھا۔ یہ زمانہ سلاجقہ عظام کہلاتا ہے۔

اس کے بعد مختلف اسلامی ملکوں میں کچھ سلجوقی غلاموں اور کچھ میں سلجوقی شہزادوں نے اپنی اپنے حکومتیں قائم کر لیں۔ ان میں مشہور سلاجقہ عراق و کردستان، سلاجقہ شام، سلاجقہ کرمان، سلاجقہ روم، سلا مشہور ہوئے۔سلجوقی بادشاہ صلاح الدین کیکباد جو قونیہ میں تھا اس کی مدد کائی قبیلہ کے الطغرل جو سلیمان شاہ کا بیٹا تھا مدد کی تھی۔ سلجوق صلاح الدین کیکباد نے اسے اپنے سلطنت کا وسیع علاقہ اس مدد کے عوض دیا تھا۔ سلجوقیوں کی ترقی کی وجوہات یہ ہیں کہ انہوں نے اپنی بدوی سادگی برقرار رکھی۔ علوم فنون کی قدرشناسی کی۔ سلطنت میں بڑے بڑے کالج قائم کیے۔ علماء کی خوب ہمت افزائیاں کیں۔ تعلیم کوعام کیا۔ وہ راسخ العقیدہ سنی تھے۔ انہوں نے عباسی خلیفہ سے ربط رکھا۔ خلیفہ سے رشتہ داری کی۔ ان کا مسلک جمہور کی مرضی کے مطابق تھا۔ اس لیے رعایا میں بہت ہر دلعزیز تھے۔

مغلوں نے ہندوستان پر تین سو سال حکومت کی۔ اس طرح سلجوقیوں نے بھی اسلامی دنیا کے ایک بڑے حصہ پر تین سو سال حکومت کی ۔ ترک عثمانیوں نے دنیا کے تین براعظموں پر اور سات سمندروں پرچھ سو پچاس سال حکومت کی۔ یہ مسلمانوں کے شاندار دور گزرے ہیں۔ مدینہ کی اسلامی ریاست کے بعد مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی ایک طویل عرصہ یعنی بارہ سو سال سے زیادہ دنیا پر حکومت کی۔