بہترین استاد

عدینہ ! دادو میں بہت اداس ہوں؛ کیوں کہ میری پسندیدہ ٹیچر اسکول چھوڑ کر جارہی ہیں،

دادو ! ظاہر ہے بیٹا ٹیچر کوٽو بعض اوقات کسی وجه سے اسکول چھوڑنا ہوتاہے ان کی کوئی مجبوری ہوگی۔

عدینہ ! جی دادو انکی شادی ہونے والی ہے؛

دادو! اپکو یہ ٹیچر اتنی کیوں پسند ہیں؛؛

عدینہ ! دادو وہ ہم سب سے پیار سے بات کرتی اور بہت کم کسی کو ڈانٹتی ہیں،

دادو ! اور؟

عدینہ ! بہت اچھی طرح سمجھاتی ہیں،  اگر ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو ہم فوراً ان سے دوبارہ پوچھ لیتے ہیں پوری کلاس کی لڑکیوں کے نام انہیں یاد ہیں،  ہم ان سے اپنی بھی کوئی بات کوئی بات کر لیتے ہیں،

مذکورہ بالا وجوہات عدینہ نے بتائیں کہ انہیں اپنی ٹیچر کیوں پسند تھی۔

حقيقت میں یہ خوبیاں ایک استاد میں ہونا لازمی بھی ہیں،

بارہ سالہ عدینہ نے ایک بہترین استاد کی یہ چند خوبیاں بتائیں جو بالکل صحیح ہیں، استاد کو روحانی والدین کا درجہ انہی اور اسی قسم کی کچھ اور بھی خوبیوں کی بناء پر دیا گیا۔ بیشک علم لینا اور دینا نبیوں کا شیوہ ہے اس جملے میں علم کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے تو ظاہر ہے کہ علم دینے والے کی شخصیت میں خاص خوبیوں کا ہونا اولین شرط ہے۔

اس کائنات کے عظیم رہنما و ھادی، معلم انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہستی مبارک بحیثیت معلم تمام خوبیوں سے مزین و آراستہ تھی  متوازن لب و لہجہ ٹھہرا ٹھہرا انداز، کسی خاص و اہم بات کو تین مرتبہ دہرانہ آپ ﷺ  کی عادت مبارک تھی۔  یہ نکات اساتذہ کرام کی کامیابی کے لیے اہم اور ضروری ہیں کہ استاد کو اپنے مضمون پر مکمل دسترس حاصل ہونی چاہئے اپنی مرضی سے یا بخیر دلیل اور مطالعہ اور تیاری کے علم جیسے اہم فریضہ کو انجام نہیں دیا جاسکتا ہے، یعنی اساتذہ کرام کی شخصیت میں نظم وضبط، مضمون پر عبور، مضمون کے مطابق مکمل منصوبہ بندی، صبرو تحمل، متوازن انداز اور طریقہ بیان کے ساتھ سامنے والے  کے ساتھ (شاگردوں کے ساتھ) خلوص و (محبت اور مشفقانہ  تعلق کا ہونا لازمی امر ہے۔ انہی مذکورہ بالا خوبیوں کی بدولت وہ صحیح معنوں میں استا دکے منصب پر فائز ہو سکتا ہے۔ یہی خوبیاں اسے شاگردوں کے درمیان پسندیدہ بھی بناتی ہیں۔

میرے والد محترم جو سندھ مدرسته السلام میں تعلیم حاصل کرتے تھے؛ وہ ہمیں اکثر اپنے چند اساتذہ کے بارے میں خصوصی طور پر بتاتے تھے کہ،،،ہمارے اسکول میں چند اساتذہ کرام ایسے بھی تھے جو فارغ وقت میں سڑکوں پر بیٹھ کر بھی ہمیں مفت میں پڑھاتے تھے بابا (اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین) کہتے تھے کہ مجھے ایک مرتبہ کسی مضمون میں متعلقہ استاد کی مدد کی ضرورت تھی میں نے استاد محترم سے کہا تو انہوں نے کہا شام کو سڑک کنارے اسٹریٹ لائٹ میں کچھ بچوں کو پڑھاتا ہوں تم وہاں آسکتے ہو اگر والدین اجازت دے سکتے ہیں تو آجانا وہ سڑک گھر کے بالکل قریب تھی اسلیے میں اپنے والد کی اجازت سے وہاں پڑھنے جاتا تھا جہاں استاد محترم دس بارہ دوسرے شاگردوں کو بھی بڑی ایمانداری سے پڑھاتے تھے۔

 کسی بھی شعبے سے انسان  منسلک ہو جائے اگر اس میں ایمانداری کا وصف ہوتو یقیناً نہ صرف کامیابی حاصل کر سکتا ہے بلکہ سامنے والے کو متاثر بھی کر سکتا ہے جبکہ درس و تدریس کا شعبہ تو خاص اہمیت کا حامل ہے اگر استاد اپنے شاگردوں کو پڑھاتے ہوئے یہ تصور کرے میں اس بچے کہ لیے والدین کی طرح ہوں تو سارے مسئلے ہی سمجھو حل ہوگئے۔

یہی تصور دوران درس و تدریس میرے رہے اگرکسی بچے کی کارکردگی صفر بھی ہوتی بڑا غصہ آتا کہ اسے دوتین لگا دوں آپ یقین کریں میرے سامنے میرے چاروں بچوں کی شکلیں آجاتیں، یہ سوچتے ہی میرا ہاتھ رک جاتا اور ایک مامتا کی طرح انہیں نئے سرے سے پڑھاتی میرے کام میں ایمانداری کا سبب خوف خدا تھا اور ایک ماں کا دل تھا کہ کہیں کسی کے ساتھ نا انصافی  نہ ہو جائے۔

معذرت کے ساتھ آج کچھ  اساتذہ کی شاگردوں کے ساتھ منفی سلوک کا پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ اسقدر گر سکتے اور اس مقدس پیشے کو داغِ دار کرسکتے ہیں۔ اس قسم کے شیطانی ذہنیت کے حامل افراد سے درس گاہوں کو بچانے کے لئے خاص اقدامات کا کرنا بے حد ضروری ہے۔