حیا اور ادیانِ عالم

دنیا کے باسی پردہ، حجاب، نقاب، حیا، صرف مسلمان عورت کے ساتھ منسلک کر کے اسے متشدد ہونے کا رنگ کیوں دیتے ہیں۔ حالانکہ حیا کی صفت اپنانے کی تعلیم تو دنیا کے تمام ادیان دے رہے ہیں۔ مصنف Han Licht کے مطابق قبل از اسلام بھی اقوام قدیمہ میں جس قوم کی تہذیب سب سے زیادہ شاندار نظر آتی ہے وہ اہلِ یونان ہیں۔ ان کا ایک دور ایسا بھی تھا جب ان میں خواتین کے پردہ کا رواج تھا اور گھریلو شریف عورت کی معاشرے میں عزت تھی۔

ایتھنز میں بھی شادی شدہ عورتوں کو ان کے کمروں تک ہی محدود رکھا جاتا تاکہ یہ دوسرے مردوں کی نظروں سے محفوظ رہیں اور صرف اپنے شوہروں کے لیے مخصوص رہیں۔ اسی طرح رومیوں کی پرانی تہذیب میں بھی عورت کی حیثیت ایک باوقار اور عفت و حیا کے پیکر کی تھی۔ روم میں جو عورتیں دایہ گیری کا کام کرتی تھیں۔ وہ بھی اپنے گھروں سے نکلتے وقت بھاری نقاب میں اپنا چہرہ چھپا لیتیں تھیں۔ بڑی چادر اوڑھ کر بھی اس کے اوپر ایک قبا اوڑھی جاتی تھی جس کے سبب نا شکل نظر آتی تھی اور نہ ہی جسم کی بناوٹ ظاہر ہوتی تھی۔

جسٹس سید امیر علی عورتوں کے بارے میں عیسائیت کے نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابتدائی زمانے کے راسخ العقیدہ کلیسا نے خواتین کے لئے ضروری کر رکھا تھا کہ اگر وہ کبھی گھر سے باہر جائیں تو وہ اپنے آپ کو سر سے پاؤں تک لپیٹ لیں۔بائبل کے عہدنامہ قدیم میں بھی “برقع” کا لفظ کئی جگہ ملتا ہے اور بے پردگی پر سخت مذمت کی گئی ہے۔

عہد نامہ جدید میں عورت کا اپنا سر ڈھانپنا ضروری قرار دیا گیا۔ ایران میں بھی پردہ کا رواج تھا۔ بلکہ ایرانی حرم میں تو اس قدر شدت رائج تھی کہ نرگس کے پھول بھی محل کے اندر نہیں جا سکتے تھے کیونکہ نرگس کی آنکھ مشہور ہے۔ عرب کے بارے میں مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں۔” چہرہ اور تمام اعضاء کا پردہ عرب میں اسلام سے پہلے موجود تھا۔ مندرجہ بالا چند حوالوں سے واضح ہوتا ہے کہ حجاب کی ضرورت و اہمیت اور افادیت مختلف تہذیبوں اور علاقوں میں مسلم رہی ہے اور قرآن مجید میں احکام حجاب کے نازل ہونے سے پہلے بھی حجاب کا رواج تھا۔

موجودہ دور میں بھی کئی غیر مسلم خواتین اسلامی طرز لباس اپنا کر اپنے تجربات بیان کر رہی ہیں اور وہ خود کو اس حقیقت کے اعتراف پر مجبور پارہی ہیں کہ واقعی حجاب و پردہ دراصل عورت کی عزت کا محافظ ہے۔ مغرب و مشرق میں کئی خواتین حجاب کی طرف مائل ہو رہی ہیں اور اپنی حیا و پردگی والی زندگی پر مسرور و مطمئن نظر آرہی ہیں۔

“ناومی والف” امریکہ کی ایک عیسائی خاتون ہیں جو “خواتین کی آزادی اور سوسائٹی میں ان کی عزت و احترام” کے قیام کے لیے کام کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے دو کتابیں بھی لکھی ہیں۔ مسلم لباس اور حجاب کے حوالے سے انہوں نے اپنے آپ پر تجربہ کیا کہ اس لباس میں عورت کیا محسوس کرتی ہے۔ وہ شلوار قمیض میں ملبوس ہو کر اور سر اسکارف سے ڈھک کر بازار کے لیے نکلی۔ ان کا کہنا ہے کہ مراکش میں مسلم خواتین میں اسکارف عام ہے۔ ہر جگہ ان کا احترام کیا جاتا ہے۔ میں اس لباس میں بالکل آرام سے تھی۔ کسی بات کی فکر نہیں تھی۔ میں ہر لحاظ سے خود کو محفوظ بلکہ ایک طرح سے آزاد محسوس کر رہی تھی۔ “مسلم خواتین، پردہ اور جنس” کے موضوع پر اپنے آرٹیکل میں ناومی والف نے اہل مغرب کو مشورہ دیا ہے کہ مسلم اقتدار کو دیانت داری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔ پردے کا مطلب عورت کو دبا کر رکھنا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ “پبلک بمقابلہ پرائیویٹ” کا معاملہ ہے۔

ادھر ہماری کچھ مشرقی خواتین معلوم نہیں کس خوش فہمی میں مغربی تقلید پر کمر بستہ ہیں۔ ساتر لباس اور حجاب و نقاب صرف مسلمان خواتین سے ہی مسلک نہیں بلکہ یہ پورے روئے زمین کی عورت کے وقار اور عصمت کی پاسداری کی علامت ہے۔ اس علامت سے چھٹکارا پاکر عورت اپنے آپ کو معاشرے میں ارزاں کر لیتی ہے۔ میں یہاں ایک بات مرد حضرات سے بھی کہنا چاہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کا قوام بنایا ہے۔ قوامیت میں صرف لباس، رہائش اور کھانا فراہم کرنا ہی نہیں بلکہ اس کی محافظت بھی ہے۔ مرد پر ذمہ داری ہے کہ اپنی بد نگاہی سے دوسروں کی خواتین کو محفوظ رکھے اور دوسروں کی بد نگاہی سے اپنے گھر کی خواتین کی حفاظت کرے۔ اور یہ صرف ایسے ہی ممکن ہے جب افراد معاشرے میں حیا اور حجاب و پردہ کو فروغ دیں گے۔