پہچان

اس نے نگاہ اٹھائی اوپر تیز چمکتا سورج اور کی تپش نے اس کے نازک سے وجود کو پچھلے چار گھنٹے سے جھلسا رہا تھا۔ اس نے اپنے سوکھے ہونٹوں پہ زبان پھیری اور انھیں تر کرنے کی کوشش کی۔ بس کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا اوپر سے عجیب وغریب قسم کے مرد جن کی نگاہیں اس کے وجود کو زخمی کر رہی تھیں۔ مارے کوفت کے اس نے پہلو بدلا اور اکلوتے ٹوٹے پھوٹے بد رنگ بنچ پہ مزید سکڑ کر بیٹھ گئی۔

کچھ بوڑھی عورتیں بھی بس کے انتظار میں بیٹھی تھیں مگر توجہ کا خاص مرکز تو وہ تھی۔ اچانک اس کی نظر بنچ کے کونے پہ کھڑی لڑکی پہ پڑی جس نے اس شدید گرمی میں اپنے وجود کو بڑی سی سیاہ چادر میں چھپا رکھا تھا اور چہرہ بھی نقاب میں چھپا تھا وہ حیران تھی کہ کس مٹی کی بنی ہے دم نہیں گھٹ رہا اس کا؟ اسی لمحے اسے احساس ہوا کہ کوئی بڑی دیر سے اسے گھور رہا ہے سامنے دیکھا تو ایک عجیب سے حلیے والا شخص شاید کوئی مزدور تھا آنکھوں میں خباثت لیے اس کا بغور جائزہ لے رہا تھا وہ سر سے پاؤں تک پسینہ پسینہ ہو گئی۔

بس آ گئی اور وہ دھکم پیل ہوئی کہ خدا کی پناہ۔ اسے سوار ہونے میں کافی دقت ہوئی وہ چادر والی لڑکی اس کے برابر والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ کچھ منچلے پیچھے سے بیہودہ گانے گنگنانے لگے اس نے پچھلی سیٹوں کی طرف نظر دوڑائی تو کسی نے اسے آنکھ ماری اس نے خجالت کے مارے گردن پھیرلی اورسر جھکا کر بیٹھ گئی۔ سیاہ چادر میں سے دو آنکھیں جھانک رہی تھیں اس نے غور کیا کہ وہ لڑکی ادھر ادھر نہیں دیکھ رہی تھی بس نظریں نیچے کیے بیٹھی رہی۔

بس منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ اگلے اسٹاپ پہ وہ لڑکی اترنے لگی تو ایک شاپر اس کی طرف بڑھایا اور چلی گئی۔ وہ حیران تھی کہ اس شاپر میں کیا ہے؟ بس میں بہت ہی واہیات گانا چل رہا تھا اس نے غصے سے دانت بھینچے۔ پیچھے بیٹھے شخص نے بس کی جالی سے لگ کے اس گانے کو گنگنانا شروع کر دیا اسے بہت خوف سا محسوس ہوا۔

وہ سوچ رہی تھی کہ چادر والی لڑکی پر کسی نے آواز نہ کسی، اگر کسی نے بغور اس کے سراپے کا جائزہ لینا بھی چاہا تو ناکام ہی رہا۔ بس اسی لمحے اس نے ایک فیصلہ کیا۔ وہ فیصلہ جو اس کے لیے بہت مشکل تھا اس نے شاپر میں ہاتھ ڈالا اور سیاہ رنگ کی چادر میں اپنے وجود کو چھپا لیا۔ چادر میں سے جھانکتی سیاہ آنکھیں بہت مضبوط اور پر اعتماد لگ رہی تھیں۔ اس نے آج اپنا ڈریس کوڈ پالیا تھا جو اس کا وقار، اس کی پہچان تھا۔