حجاب میرا فخر، میری پہچان

حجاب مسلمان عورت کے لئے ایک ایسا فریضہ ہے جو وہ احکام الہٰی کے تحت ادا کرتی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے !”اور اے نبی ! مومن عورتوں سےکہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اسکے کہ جو خود ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں “۔ سورة النور آیت نمبر ۳۱

حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ جب سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ سے لوگ سن کر گھروں کو پلٹے اور جاکر انہوں نے اپنی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کو سنائی۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی کہ جو سن کر بیٹھی رہی ہو۔ ہر ایک اٹھی، کسی نے اپنا پٹکا کھولا اور کسی نے چادر اٹھا کر اوڑھنی بنالی۔ دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد نبوی میں حاضر ہوئیں چادریں اوڑھے ہوئے تھیں۔بھر اگلا حکم سورۃ الاحزاب میں نازل ہوا ! “اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں”۔

مجھے فخر ہے کہ حجاب میری پہچان ہے کہ میں ایک مسلمان عورت ہوں۔ میرا حجاب میری حیا کا عکاس ہے۔ میں حجاب کے ساتھ گھر سے باہر نکلتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں غیر محرموں کی نظروں سے محفوظ حصار میں ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے حجاب عورت کو تقدس ہی نہیں تحفظ بھی عطا کرتا ہے یہ شیطان اور اُس کے حواریوں کی ناپاک نگاہوں سے بچنے کے لئے ایک محفوظ قلعہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب عورت پردہ سے بے نیاز ہو جاتی ہے تو اسکی مثال فوج کے اس سپاہی جیسی ہے جو میدان جنگ میں اپنے ہتھیار پھینک دے اور خود کو دشمن کے حوالے کر دے کیونکہ پردہ مسلمان عورت کی ڈھال ہے یہ ایک مسلمان عورت کے لئے ایمان کے بعد خوبصورت ترین تحفہ ہے جو معاشرے سے بے حیائی کی جڑ کاٹ کر اسکی نسلوں کو پاکیزہ ماحول مہیا کرتا ہے۔ شرم و حیا عورت کا سب سے بڑا زیور ہے اور اس قیمتی زیور کی حفاظت پردے کے بغیر ممکن نہیں۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال مسلمان عورت سے مخاطب ہیں۔

بتولے باش و پنہاں شوازیں عصر

کے در آغوش شبیرے بگیرے

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ! “عورت پوری کی پوری ستر ہے۔ جب وہ باہر نکلنی ہے تو شیطان اسے تاکتا رہتا ہے تا آنکہ اسے اپنا آلہ کاربنالے اور اللہ کی رحمت سے قریب ترین اُس وقت ہوتی  ہے جب وہ گھر کے کسی گوشے میں ہوتی ہے۔”عورت کے بے پردہ باہر نکلنے سے معاشرہ اور آنے والی نسلیں بگڑ جاتی ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میرے بعد تمام فتنوں سے زیادہ نقصان دہ فتنہ مردوں کے لئے عورتوں کا فتنہ ہے “۔ گویا معاشرے کو فتنہ و شر سے بچانا ہے تو عورت کو با حیا و با پردہ رہنا ضروری ہے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ حجاب محض سر لپیٹنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک نظام ہے جو شیطانی اخلاق سے آزادی حاصل کرنے اور اپنے معاشرے اور خاندان کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے میں مددگار ہے۔ میرا خیال ہے کہ غیر مسلم خواتین جو اسلام کو پڑھ کر سمجھ کر مسلمان ہوتی ہیں وہ شعوری طور پر پردے کو اپناتی ہیں۔ اسلئے وہ حجاب کو کبھی بوجھ یا تکلف نہیں سمجھتیں ۔

ایک جاپانی نومسلمہ خولہ لکاتا حجاب کے بارے میں اپنے تاثرات یوں بیان کرتی ہیں۔ ” پہلے مجھے حیرت ہوتی تھی کہ مسلم بہنیں برقعے کے اندر کیسے آسانی کے ساتھ سانس لے سکتی ہیں؟ اس کا انحصار عادت پر ہے جب کوئی عورت اسکی عادی ہو جاتی ہے تو کوئی دقت نہیں ہوتی۔ پہلی بار میں نے نقاب لگایا تو مجھے بڑا عمدہ لگا۔ انتہائی حیرت انگیز، ایسا محسوس  ہوا، گویا میں ایک اہم شخصیت ہوں۔ مجھے ایک ایسی شاہکار کی مالکہ ہونے کا احساس ہوا جو اپنی پوشیدہ مسرتوں سے لطف اندوز ہو، میرے پاس ایک خزانہ تھا، جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہ تھا ، جسے اجنبیوں کو دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔ ریاض میں ابتدائی چند مہینوں تک میری آنکھیں بےپردہ رہتی تھیں۔ لیکن جب میں نے جاڑے کا برقعہ بنایا تو اس میں انکھوں کا باریک نقاب بھی شامل کر لیا۔ اب میرا پردہ مکمل تھا اس سے مجھے یک گونہ آرام ملا۔ اب مجھے بھیڑ میں کوئی پریشانی نہ تھی۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں مردوں کے لئے غیر مرئی ہوتی ہوں۔ آنکھوں کے پردے سے قبل مجھے اُس وقت بڑی پریشانی ہوتی تھی جب اتفاقیہ طور پر میری نظریں کسی اجنبی مرد کی نظروں سے ٹکراتی تھیں۔ اس نئے نقاب نے سیاہ عینک کی طرح مجھے اجنبیوں کی گھورتی نگاہوں سے محفوظ کر دیا۔

ایک غیر مسلم کسی داڑھی والے مرد کو کسی برقعہ پوش خاتون کے ساتھ دیکھ کر اس جوڑے  کے متعلق ایک ایسے ہیولے کا تصور کر سکتا ہے جو ظالم و مظلوم یا غالب و مغلوب ہو۔ مگر اسلام میں شوہر و بیوی کا ایسا تعلق ایک صفت سمجھی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح عورت یہ محسوس کرتی ہے کہ اُس کا احترام اور حفاظت ایک ایسے شخص کے ذریعے کی جاتی ہے جو واقعتاً اس کا لحاظ کرتا ہے، یا میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ وہ اپنے آپ کو ایسی شہزادی تصور کرتی ہے جس کا ہم سفر اُسکا محافظ ہوتا ہے ۔ یہ کہنا زبردست مغالطہ ہے کہ مسلم عورتیں مردوں کی نجی ملکیت ہیں اور انھوں نے حسد کی بنا پر اس بات سے روک دیا ہے کہ اجنبی مرد انہیں دیکھیں ۔ ایک عورت اللہ کے فرمان کی اتباع میں اپنے آپ کو چھپائے رکھتی ہے تاکہ اُسکو عفت و سربلندی حاصل ہو۔ وہ گھورتی ہوئی اجنبی نگاہوں کا ہدف بننے یا اسکی شے ہونے سے انکار کر دیتی ہے۔ وہ مغربی عورتوں کے لئے ہمدردی اور ترحم کا جذبہ رکھتی ہے جنہیں نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔”

ان سب حقائق نے ہی اہل مغرب کو مسلمان خواتین کے حجاب سے خوفزدہ کر رکھا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مسلم معاشروں میں جو حیا اور پاکیزگی موجود ہے وہ اس کی وجہ سے ہے۔ اسلئے وہ پردے کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ کے ذریعے مسلم خواتین کو اس سے بیگانہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ مسلمانوں میں بھی بے حیائی کا کلچر عام ہو جائے۔ ان میں وہ قوتِ ایمانی جاتی رہے  جسکی بناء پر وہ وسائل کی کمی کے باوجود عالم کفر پر غالب آ سکتے ہیں۔تو پھر میری بہنو ! اگر ہم نے کفار کے خلاف اپنے جذبہ ایمانی کو محفوظ رکھنا ہے تو اپنے حجاب کو حیا کے حصول کا ذریعہ بنائیں۔ حضرت فاطمہ، حضرت عائشہ اورحضرت زینب رضی اللہ عنھن جیسے ناموں پر فخر ہی نہ کریں بلکہ ان جیسا کردار اپنائیں۔

عورت کی حمیت کا نگہباں ہے پردہ

اخلاق کے معیار کی پہچان ہے پردہ

پردے سے جو باغی ہے وہ عورت ہی نہیں ہے

عورت کے لئے فخر کا سامان ہے پردہ

حقیقت یہ کہ پردے کی ضرورت ہے نمایاں

اس صنف کے کردار کا نگہبان ہے پردہ