حیا کی ہی کمی

مجھے یاد ہے جب میں نے باقاعدہ عبایا لینا شروع کیا تھا۔ فرسٹ ائیر میں کالج کا پہلا دن تھا اور ساتھ عبائے کا بھی، اندر سے بہت excitement تھی کہ اب میں بھی یہ پہنوں گی کیونکہ شوق تو بچپن سے تھا اپنی خالاؤں کے عبائے اکثر ان کی نظر بچا کر پہن لیتے تھے اور بڑا اترا اترا کر چلتے تھے کہ ہم بہت اچھے لگ رہے، یہ الگ بات جب خالہ کی نظر پڑتی تھی تو ڈانٹ کر اتروا دیتی تھیں۔

جب پہلی دفعہ عبایا پہنا تو آپی نے کافی مدد کی کہ اسکارف کیسے سیٹ کرتے ہیں، عبایا چڑھاتے اتارتے ہر دفعہ بٹن کھولنے ہوتے ورنہ میں تو شرٹ کی طرح چڑھانے اتارنے کا سوچے بیٹھی تھی۔ پہلی دفعہ پہن کر چلنا شروع ہوئی تو آگے سے عبایا مٹھی میں پکڑ کر اٹھا لیا لاشعور میں یہ بات کہ کہیں پیروں میں نا آجائے اور میں الجھ کر گر نا پڑوں یہاں پھر آپی نے گھورتے ہوئے کہا “کیا ہوا نیچے پانی پڑا ہے جو عبایا اوپر اٹھا لیا؟ چھوڑو اسے اور ایسے ہی چلو پھر تھوڑا اعتماد بحال ہوا، اس کے بعد یہ حال کہ جب ایک دفعہ پہن لیا تو اس کے بغیر باہر جانے کا تصور ہی نہیں، درسگاہ ہو، جاب ہویا شاپنگ بس عبایا ہوگا تو جائیں گے ورنہ نہیں، کچھ عرصہ اسکول میں پڑھایا وہاں ساتھ کی لڑکیاں بہت کم پہنتی تھیں اکثر ان کی طرف سے سننے کو ملتا تھا یار تم سارا دن پہنے رہتی ہو اسکول میں تو گھر والے نہیں ہوتے تو اتار دیا کرو۔ میں ان سے حیران ہوکر کہ گھر والوں کیلئے کب پہنتی ہوں میں؟ تو سوال آتا کہ “پھر کس کیلئے پہنتی” میں جواب دیتی. “کیا سورہ نور اور سورہ الحجرات نہیں پڑھی؟ اس میں اللہ نے کہا کہ پہنو !” تو خاموشی چھاجاتی مجھے لگتا یہ باتیں ہر حجاب لینے والی کے ساتھ پیش آ تی ہوں گی۔

یہ تو بہت آغاز کی باتیں جب اتنا شعور نہیں تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب شعور بڑھا تو اندازہ ہوا کہ حجاب تو اصل وہ پردہ ہے جو ہماری طرف غلط چیز کو آنے سے روکنے کیلئے درمیان میں ڈالا گیا ہے، حجاب وہی لوگ لیتے جن میں حیا ہوتی ہے اور حیا تو دلوں میں پھوٹتی ہے جو ذہن و جسم دونوں کو حجاب کرنے پر راضی کرلیتی ہے کیونکہ جب تک ذہن راضی نہیں ہوگا تب تک زینت چھپانے کی طرف بھی دل مائل نہیں ہوگا، وہ لوگ جو کہتے “دل صاف ہونا چاہئے پردہ کرنا ضروری نہیں” مجھے لگتا یہاں بھی حیا کی ہی کمی ہے جب حیا ہی نہیں ہو تو خود کو چھپانے کیلئے دل کیسے راضی ہوگا۔ پھر تو ایسے بودے جواز ہی دئیے جائیں گے !

حیا کو ایمان کا حصہ قرار دینا کوئی معمولی بات تو نہیں، اس میں تو اللہ نے مرد و عورت کی تفریق بھی ختم کر دی حیا کی بات ہو تو سب عورت کی مثال دیتے یا عورت کو خاکہ بنا کر پیش کرتے مجھے پتہ نہیں کیوں جب حیا کی بات ہو تو حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ یاد آتے، کہ ایک کے سامنے عورت کی کھلی آفر اور وہ اتنے حیا والے کہ اسے ٹھکرا کر سالوں کی قید میں رہنے کو ترجیح دے دی اور دوسرے کی حیا ایسی جن کیلئے بتایا گیا کہ ان سے فرشتے بھی حیا کر تے ہیں۔ دونوں کی تنہائی پاکیزہ آج جہاں حضرات اتنے فخر سے کہتے میں لڑکی تھوڑی جو شرماؤں میں تو سب کرسکتا ہوں تو ان کی کھلی مثا لیں سامنے ہیں۔ جو لباس سے لے کر عمل تک کے ہر ہر معاملے میں انتہاء کے حیا والے تھے۔

اس چار حرفی لفظ حجاب کو عملی طو ر پر پھیلایا جا ئے تو یہ صرف عورت کی زینت اور نامحرم کی نگاہ کے درمیان ڈالنے والی چیز نہیں ہے بلکہ یہ مرد و عورت کی بلا تفریق ہر معاملے میں آ تا ہے۔ جیسے کہ دو لوگوں کی گفتگو کے درمیان، کسی سے لین دین کے درمیان ، تنہا ئی میں بیٹھے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہو ئے موبائل اور خود کے درمیان، عورت اور عورت کے درمیا ن، مرد اور مرد کے درمیان، اچھی اور بری سو چ کے درمیان۔

جب تک ان سب کے درمیان حجاب رہے گا تو عافیت رہے گی اور جہا ں سے یہ حجاب ہٹ جا ئے گا وہاں پھر بگاڑ شرو ع ہوجا ئے گا ۔

اللہ رب العالمین ہم سب کو حیا والا بنا ئے۔ آمین