عوام کی سسکیاں اور چیخیں

پاکستان اپنی76 سالہ تاریخ میں بہت سےنازک ادوار سے گذرا ہے لیکن مایوسی کی جو کیفیت اب نظر آرہی ہے وہ پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ صورتحال بہت زیادہ گھمبیر ہے مگر ارباب اختیار کی ترجیحات ہی الگ ہیں۔ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے کچھ فرمودات نے تو نیرو کی یاد دلادی ہے جو روم کے جلتے وقت بانسری بجارہا تھا اور یہاں پاکستان میں لوگ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر خود کشیاں کررہے ہیں اور محترم وزیر اعظم فرمارہے ہیں کہ مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ اس کے لیے شٹر ڈاٶن ہڑتال کی جائے۔

ملک کی معیشت تباہ حال ہے۔ ڈالراتنا بے لگام ہوچکا ہے۔ پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں عوام کا منہ چڑا رہی ہیں تو بجلی کے ہوشربا بلوں نےعوام کے بل نکال دیئے ہیں اور محترم کاکڑ صاحب فرمارہے ہیں کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ عوام کے ساتھ ایسا مذاق پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ پہلے بھی زخم لگتے تھے لیکن اب تو زخموں پر نمک بھی چھڑک جارہا ہے۔ ٹھنڈے کمروں کےاجلاسوں میں بیٹھ کر عوام کے مسائل حل کرنے کے دعدیداروں کو اس بات کا ادراک کون کروائے گا کہ ملک انارکی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ عوام کی آنکھوں ابھی تو آنسو ہیں لیکن وہ وقت بہت قریب ہے کہ جب جب ان آنسوٶں کی جگہ خون بھرجائے اور پھر حالات کسی کےقابو میں نہیں رہیں گے۔

لندن سے آئے ہوئے وائسرائے شہباز شریف 16 ماہ حکمرانی کا مزے لیکر واپس برطانیہ لوٹ چکے ہیں۔ ڈار جو ڈالر کو لگام ڈالنےآئے تھے ڈالر کو آسمان پر پنچا کر لندن لوٹ چکےہیں۔ مولانا فضل الرحمن خاموش ہیں۔ زرداری صاحب نے دبئی میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ نگری نگری گھومنے والے بلاول بھٹو کے لیے بھی مہنگائی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مریم بی بی کو بس اپنے والد صاحب کی واپسی کی پڑی ہے اور باقی رہ گئے 25 کروڑ عوام وہ اس وقت بے چارگی کے عالم میں ہیں کہ ان کی سانسیں تو رک گئی ہیں لیکن دفنانے کا عمل ابھی باقی ہے۔ ملک میں عملاؐ اس وقت آئی ایم ایف کی حکومت ہے۔ بجلی کے بلوں میں سبسڈی دینے کے لیے بھی ہم ان کو درخواست کرتےہیں جو مسترد کردی جاتی ہے۔ نظام عدل مفلوج ہوچکا ہے۔ بس عوام کی سسکیاں اور چیخیں ہیں جو طاقتوروں کو سنائی نہیں دے رہی ہیں۔

جب تک ملک میں سیاسی انتشار موجود رہے گا اس وقت تک معیشت بھی زبوں حالی کا ہی شکار رہے گی۔ مسئلے کا حل کاسمیٹکس طریقے سے ڈھونڈنے والوں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ جبر اور خوف سے کوئی چیز بدلی نہیں جاسکتی ہے۔ اگر کوئی نیک نیتی کے ساتھ ملک کو اس بحران سے نکالنا چاہتا ہے تو اس کا حل الیکشن سے فرار نہیں بلکہ فوری شفاف الیکشن کا انعقاد ہے۔ ایک ایسا الیکشن میں جس میں دھاندلی کا شائبہ بھی نہ ہو اور ایک ایسا الیکشن جس میں وہ تمام جماعتیں اور شخصیات حصہ لیں جن کی مقبولیت کو آپ مصنوعی طریقوں سے دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر چہ کافی پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے لیکن اب بھی ایک موہوم سی امید باقی ہے۔ ملک ان کے ہاتھوں میں دیاجائے جسے یہاں کے عوام چاہتے ہیں اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پھر نوشتہ دیوار ہمارے سامنے ہے جس میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور پھر معاملات پھر کسی کے بھی ہاتھوں میں نہیں رہیں گے۔