بجلی کے بل نے کمر توڑدی

وہ سیکورٹی گارڈ کی پوری وردی پہنے ہوئے تھا، اور سر جھکائے ایک بورڈ لیے کھڑا تھا، اس پر لکھا تھا کہ زندگی میں پہلی بار سڑک پر مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلائے ہیں، پہلے تنگی ترشی سے گزرا ہوجاتا تھا، لیکن اب بجلی کے بل نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے، میں نے پوری تحریر نہیں پڑھی، اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی اذیت ہی سے اس کے مسائل واضح تھے۔ ایک سیکورٹی گارڈ کی تنخواہ کیا ہوتی ہے، 15 سے 20 ہزار اس رقم میں گھر چلانا ایک دکھ اور درد کی لامتناہی داستان ہے۔

‏میری نظروں سے ان دو سگے بھائیوں کی تصویر بھی ہٹائے نہیں ہٹتی، جنہیں غربت اور بجلی کے بل سے ڈسی ہوئی ماں نے زہر پِلا کر مار دیا۔ یہ المناک سانحہ منڈی بہاوالدین کے ایک گاؤں کا ہے، جہاں غربت کی ستائی ماں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ اس کا شوہر محنت مزدوری کے لیے فیصل آباد تھا۔ بیوی نے شوہر کو فون کیا “توقیر! ایک پنکھا اور ایک بلب ہے بجلی کا بل دس ہزار روپے آیا  واپڈا والے میٹر اُتار کر لے گئے ہیں، اب بچے رات بھر گرمی اور حبس میں رہتے ہیں اور  بھوک  سے روتے ہیں، بتاؤ کیا کروں؟ شوہر نے کہا،” یہاں کام نہیں ہے اور میں بیروزگار ہوں، کسی سے اُدھار لے لو” بیوی نے روتے ہوئے کہا ” کوئی ادھار نہیں دیتا میں کیا کروں؟ ” انہیں باتوں پر دونوں کے درمیان جھگڑا بڑھا، اور اسی جھگڑے میں بیوی نے تینوں بچوں کو گندم محفوظ بنانے والی زہر کی گولیاں پانی میں ملا کر پلا دیں اسپتال میں ایک بچے کو بچالیاگیا لیکن دو بھائی اِس بے حس سماج، بے رحم نظام اور بے فیض حکمرانوں سے فریاد کرتے دنیا سے رخصت ہوگئے۔

یوم آزادی کی 76 ویں سالگرہ پر قوم پر بجلی کے بل قیامت بن کر ٹوٹے، کراچی میں کے الیکٹرک نے تباہی پھیلا دی ہے، کمپنی دونوں ہاتھوں سے منافع سمیٹ رہی ہے اور عوام کے پاس کچھ نہیں بچا ہے، کے الیکٹرک کی پرائیویٹائزیشن کے بعد لائن لاسز 34.2 فی صد سے کم ہو کر 15.3 فیصد پر آگئے۔ اس عرصے میں اس کا منافع 76 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ لیکن یہ کمپنی عوام کو کوئی سہولت دینے پر تیار نہیں ہے، بلکہ مزید بجلی مہنگی کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے، ایک رپورٹ کےمطابق بجلی صارفین پر 144 ارب 68 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کا منصوبہ ہے، اب سہ ماہی ایڈ جسٹمنٹ کی مد میں قیمت میں اضافے کے لیے نیپرا سے رجوع کیا ہے۔ چند ہفتے قبل بجلی کی قیمت میں ساڑھے سات روپے تک کا اضافہ کیا گیا جس سے بجلی کی قیمت بشمول ٹیکسز پچاس روپے فی یونٹ ہوگئی ہے۔

عوام پہلے ہی بھاری بلوں کے سبب بلبلا رہے ہیں جبکہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ٹرانسفرخرابی کے علاوہ اوور بلنگ کی شکایات بھی عام ہیں۔ بجلی سے متعلقہ ادارے اپنے نظام کے نقل بجائے سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالتے جارہے ہیں۔ ملک کی بڑی صنعتوں کی پیداوار مسلسل کم ہورہی ہے، کراچی کے تاجر اور عوام مہنگی بجلی اور لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہیں۔ 55 یا60 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کے بل کا بوجھ عوام کیسے برداشت کرے گی۔

بجلی فراہمی کے جو معاہدے ہوئے ہیں اس پر اس وقت نظر ثانی کی نہیں بلکہ ان کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو اپنے نظام میں موجود نقائص کو دور کرنا چاہیئے۔ عوام کا غصہ اشرفیہ اور ان حکمرانوں کے خلاف بڑھتا جارہا ہے، جو مفت بجلی، پیٹرول اور دیگر سہولتوں کے مزے اڑا رہے ہیں اور بھوکی عوام کو کیک کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ عوام کو حقیقی ریلیف دینے کیلئے ضروری ہے کہ بجلی چوری ختم کر کے، سرکاری حکام اور افسران مفت بجلی گیس پٹرول کی سہولت واپس لی جائے، وفاقی اور صوبائی وزراء کی تعداد اور قیمتوں میں اضافے کا سبب بننے والی بنیادی اشیاء کے نرخ کم کیے جائیں۔

حصہ
mm
عطا محمد تبسم سینئر صحافی، کالم نگار ہیں،وہ خرم بدر کے قلمی نام سے بھی معروف ہیں اور ان کئی کتابیں، قاضی حسین احمد انقلابی قیادت، محبتوں کا سفر رپوژ تاژ کاروان دعوت و محبت،سید مودودی کی سیاسی زندگی، پروفیسر غفور احمد،محبتوں کا سفیر سراج الحق عوام میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں، مارکیٹنگ کے موضوع پر ان کی تین کتابیں فروخت کا فن، مارکیٹنگ کے گر، اور مارکیٹنگ کے 60 نکات اور 60 منٹ ان کے ان کے اصل نام سے شائع ہوچکی ہیں۔وہ ایک ٹی وی چینل کی ادارت کی ٹیم کا حصہ ہیں۔جنگ، جسارت، نوائے وقت ایکسپریس، جہاں پاکستان میں ان کے کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھے بلاگر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ بیمہ کار میگزین اور بیمہ کار ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔