بھوک تہذیب کو مار دیتی ہے

بھوک کہنے کو تو صرف چار حرفی لفظ ہے لیکن اسکے اندر ایسی اذیت اور درد بھری خاموش چیخیں اور آہ و بکا ہے جو انسان کو جیتے جی ماردیتی ہے۔ اسکا تعلق کسی علاقے مذہب رنگ یا نسل سے نہیں ہوتا اسکے شعلے جب بھڑکتے ہیں تو پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ یہ جس شخص پہ وار کرتی ہے اسکو ہر معصوم بچہ گوشت کا نوالہ اور سورج اور چاند روٹی کی صورت نظر آنے لگتے ہیں اور ہر ناجائز اور حرام اس کو اپنا حق لگنے لگتا ہے۔

موت انسان کو صرف ایک بار مارتی ہے لیکن بھوک ایسا قاتل زہر ہے جس سے لوگ روز جیتے اور روز مرتے ہیں بھوک دو طرح کی ہوتی ہے ایک پیٹ کی بھوک اور دوسری نفس کی بھوک۔ پیٹ کی بھوک بہت بڑی آزمائش ہے جس سے نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے بھی پناہ مانگی ہے یہ وہ قاتل ہے جو باپ کے گلے میں پھندہ ڈال کر خودکشی پہ مجبور کردیتی ہے اور بہت سی ماؤں کو اپنے بچوں کے ساتھ دریابُرد کردیتی ہے۔ اس کے ستائے بہت سے تعلیم یافتہ نوجوان چوری ڈاکہ اور دوسرے بہت سے جرائم میں ملوث ہوکر معاشرے اور تہذیب کو قبرستان بنادیتے ہیں۔

دوسری قسم نفس کی بھوک ہے جو پیٹ کی بھوک سے کہیں زیادہ بھیانک اور مہلک ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی یہ بھوک ایک ایسا ناسور ہے جو انسان کے اندر حیوانیت کو ابھارتی اور تہذیبی و معاشرتی اقدار کا جنازہ نکال دیتی ہے۔ نفس کی بھوک کے شکار افراد اپنی بھوک کو مٹانے کیلیے بہت سے معصوم بچوں اور بچیوں کا جنسی استحصال کرکے انکو کچرے کے ڈھیروں میں دبادیتے ہیں۔ بہت سی باعزت حوا کی بیٹیاں بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر طوائفوں کے کوٹھوں پہ جا کے اپنا آپ کھوبیٹھتی ہیں۔ ہمارا نفس اتنا بھوکا ہوچکا ہے کہ ہم اپنی بھوک مٹانے کیلیے اپنے ہی بھائی کا گلا گھونٹ دیتے ہیں والدین جیسی معزز ہستیاں بھی ہمارے شر سے محفوظ نہیں رہ پاتیں۔

یہ بھوک صرف ہمارے ضمیر کو ہی نہیں مارتی بلکہ ہماری تہذیب کو بھی موت کی نیند سلا دیتی ہے۔ ہماری تہذیب تو یہ تھی کہ لوگ صدقہ و خیرات کی رقم ہاتھ میں لیے پھرتے تھے لیکن انہیں مستحق نہیں ملتا تھا سونے اور چاندی سے لدے ہوئے اونٹ کی مہار ایک نوعمر لڑکا پکڑ کے دوردراز کا سفر کرتا تو اسے رہزنی اور چوری کا ڈر نہ ہوتا ، ایک مسلمان بیٹی کی پکار پہ مسلمانوں کا لشکر انجام کی پرواہ کیے بغیر ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے پہنچ جاتا۔ لیکن آج یہ کہتے ہوئے میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ کروڑوں اور اربوں روپے کا بینک بیلنس لمبی لمبی گاڑیاں اور بڑی بڑی جاگیریں ہونے کے باوجود ہم اندر سے بھوکے ہیں۔ پیٹ کا جہنم ہے کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا جتنی زیادہ دولت ہمارے پاس جمع ہوتی جارہی ہے اتنی ہی زیادہ بھوک اور ہوس بڑھتی جارہی ہے۔ جیسے جیسے یہ دولت چند ہاتھوں میں جمع ہوتی جارہی ہے ویسے ویسے ہماری تہذیبی و معاشرتی اقدار مرتی جارہی ہیں جس کے نتیجے میں بھوک، افلاس، تنگدستی، جنسی و مالی استحصال، سنگین جرائم اور دہشت گردی بڑھتی جارہی ہے۔

ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اس معاشرے کی ڈوبتی ناؤ کو سنبھالنے کی کوشش کریں ہماری تہذیب اور معاشرہ اس ناسور سے تبھی پاک ہوسکے گا جب ہم انکو ختم کرنے کی دل سے کوشش کریں گے صرف باتوں اور دعووں سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس بھوک کو ختم کرنے کا واحد حل مستحقین کے حقوق اور اپنے فرائض کی انجام دہی اور اسلامی معاشرتی اقدار اور تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے۔

نبی مکرم صلی الله عليه وسلم کا فرمان عالیشان ہے۔ “وہ شخص کبھی بھی مومن نہیں ہو سکتا جو خود تو پیٹ بھرکے سوئے اور اسکا پڑوسی بھوکا رہے”۔

اگر ہم سیرتِ طیبہ کو اپنائیں تو ہماری تہذیب اور معاشرہ خوشحال ہو سکتا ہے ورنہ روزِ قیامت اس خدائے لم یزل کی عدالت میں بھوکے انسانی بھیڑیوں کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہونے والی کئی زینب اور انصاف نہ ملنے پر خودسوزی کرنے والی کئی خواتین ہمارا گریبان پکڑیں گی، اپنی ہی بہنوں کو بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر فروخت کرنے والے بھائی، اولاد کی بھوک کے سامنے بےبس ہوکر خودکشی کرنے والے باپ اور زہر کا پیالہ پی کر اپنے بچوں کے ساتھ دریاؤں میں کود کر خود کو بھوک کی بَلی چڑھانے والی مائیں ہمیں جھنجھوڑیں گی اور ہم سے پوچھیں گی کہ ہم نے اتنی دولت رکھنے کے باوجود ان کیلیے کیا کِیا؟ مرنے کے بعد انکے ایصال ثواب کیلیے خیرات کی انکے گھروالوں کو وظائف دیے لیکن جیتے جی انکی مدد کیوں نہیں کی؟ انکی نم آلود آنکھوں میں چھپا درد اور چہرے پہ چھائی بےبسی اور مجبوری کیوں نظر نہیں آئی؟۔

جاگ جائیے! خدارا جاگ جائیے کہ ہمارا معاشرہ اور ہماری تہذیب آج کے اس بگاڑ، انتشار اور بھوک سے زیادہ کی متحمل نہیں ہوسکتی ورنہ اسکا بدترین انجام ہماری نسلوں کو برباد کرنے کیلیے تیار کھڑا ہے۔