ہمارا مزاج اور ہم

ہم میں سے بیشتر کی زندگی پریشانیوں کا شکار ہوجاتی ہیں، بسا اوقات وہ ہماری غلطیوں کے باعث رہنما ہوتی ہے، اور بس ایسی پریشانی خدانخواستہ آجاتی جو اللہ کی طرف سے ہماری آزمائش بنی ہوئی ہوتی ہے۔

اس میں بلاشبہ کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی ہے کہ رب اپنے نیک بندوں کو ہی آزمائش میں ڈالتا ہے، تاہم یہ ہمارے مزاج کے اوپر ہے کہ ہم پریشانیوں کو خود پر طاری کرلیں یا پھر اُن سے کس طرح سے لڑنا ہے یا حل کرنا ہے. مگر ہم اکثر ہی یوں کرتے ہیں کہ اپنی پریشانیوں کا حل تلاش کرنے کے بجائے ہم دوسروں کے ساتھ اپنا رویہ سخت کرلیتے ہیں اور دوسرے ہمارے رویوں کے وجہ سے ہم سے ملنا جُلنا کم کردیتے ہیں.جس کے باعث ہم مزید پریشانیوں میں پھس جاتے ہیں، وقتی طور پر ہم یوں کرتے ہیں کہ ہم اُن تمام لوگوں سے رابطہ کم کرلیتے ہیں، مگر جیسے ہی ہم اپنی پریشانی سے تھوڑا باہر نکلتے ہیں تو ہمیں خیال آتا ہے کہ ہم مزید پریشانیوں کا شکار ہوگئے ہیں اور اسطرح ہمارے سر ایک پریشانی کھڑی رہتی ہیں۔

اصل بات تو یہ ہی قابل غور ہے کہ ہمارا مزاج ہی ہمیں لوگوں سے روشناس کرواتا ہے، اور ہمیں ذی شعور نوجوان بناتا ہے جو ایسے وقتوں میں جب آپ کو پریشانی لاحق ہو تب آپ کو کس مہارت سے اُن پریشانیوں سے نکلنا ہے، ایک خوش مزاج انسان اور بدمزاج انسان میں یہ فرق ہوتا ہے کہ، بدمزاج انسان سے کوئی انسان بات نہیں کرنا چاہتا ہر کسی اپنی عزت عزیز تر ہوتی ہے اسلیے وہ اس لمحات میں اپنے لمحے کو خراب نہیں کرتا، صرف اُن کی طرف ہی متوجہ ہوتا ہے جن بات کرنے سے اُسے مثبت رائے یہ بات چیت جا پہلو اجاگر ہو، کیوں کہ ایک عاقل ہمیشہ اس بات کا قدر دان ہوتا ہے جو اُس کی باتوں کی بھی قدر کرے، چاہے کوئی اعلی تعلیم یافتہ ہو یا کوئی ان پڑھ دونوں ہی صورتوں میں انسان اپنی عزت کو کھونا نہیں چاہتا۔

اگر آپ کوئی ایسا انسان جو اپنے علم کے بدولت اپنے شعور کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر وہ چاہیں کہ اپنی دینی معلومات کسی ایسے انسان کو دے جو دین سے ناواقف ہو تب ایسے صورت میں مزاج کا، اچھا اخلاق کا ضامن ہونا ضروری ہے، کیونکہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،”مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں” دین کے معاملے میں خاص طور پر آپ کا اخلاق اعلی بلند ہونا ضروری ہے بلکہ یہی ہی نہیں اگر کسی عام انسان سے بھی کوئی عام سی بھی بات کرے تب بھی آپ کو اپنے مزاج کو اچھا رلھنا ضرروی ہوتا ہے، اکثر وبشتر ایسا ہوتا ہے کہ ہم میں سے اکثر انسان اللہ کی جانب سے ملنے والی خوشیوں کو اپنے سر پر اس قدر چڑھا لیتے ہیں کہ دوسروں کو اپنے سے کم تر محسوس کرنے لگتے ہیں.ہمیں چاہیے کہ ہم مزاج درست رکھے۔